مرے حضُورؐ اُس اوجِ کمال تک پہونچے

مرے حضُورؐ اُس اوجِ کمال تک پہونچے

کوئی نہیں ہے جو اُنؐ کی مثال تک پہونچے


وہ سب کے سب مرے آقاؐ کے نامِ نامی ہیں

تمام وصف جو حدِّ کمال تک پہونچے


اُنہیں ؐ کی چشمِ کرم آشنا کے صدقے میں

دِل و نگاہ مرے وجد و حال تک پہونچے


درِ نبیؐ پہ پہنچ کر خدا کو یاد کروں

خدا کرے یہ تمنّا مآل تک پہونچے


کوئی دُعا تو درِ مستجاب تک جائے

کوئی تو اشک مرا عرضِ حال تک پہونچے


پڑھوں وہ نعت کہ گونجے اذان سی دل میں

ملے وہ سوز جو لحنِ بلال تک پہونچے


حنیفؔ اپنی گدائی پہ ناز ہے مُجھ کو

وہ ہاتھ خود مرے دستِ سوال تک پہونچے

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

اک اک سے کہہ رہی ہے نظر اضطراب میں

ہادئ پاک و خیر البشر آپؐ ہیں

یارب یہ تمنّا ہے کہ نازل ہو وہ ہم پر

دِل سے اوہام مٹے فکر نے رستہ پایا

دونوں ہاتھوں میں ہے اب آپؐ کا داماں آقاؐ

دُعا کو بابِ اثر سے گزار کر دیکھو

سرِ ساحل نظر آتے ہیں سفینے کتنے

وہ ذات بیکس و مجبُور کا سہارا نہ ہو

خدا گواہ کہ بے حدّ و بے کراں ہیں حضُورؐ

نامِ نامی بھی صدا ہو جیسے