وہ ذات بیکس و مجبُور کا سہارا نہ ہو

وہ ذات بیکس و مجبُور کا سہارا نہ ہو

یہ اور بات ہمی نے انہیں ؐ پکارا نہ ہو


خدا نے آپؐ کو دُنیا میں اس لئے بھیجا

مصافِ زیست میں انسان بے سہارا نہ ہو


وہ دُشمنوں سے بھلا انتقام کیا لیتے

ستمگروں پہ بھی جِن کو ستم گوارا نہ ہو


وہ آج شہرِ سکوں ہے‘ جہاں پہ آقاؐ نے

کبھی سکُون کا اک لمحہ بھی گزارا نہ ہو


تمام عُمر خدائی سے پیار میں گزری

خدا کے بندوں کا پیارا خدا کو پیارا نہ ہو


حضُورؐ ایسے بھی مہجور پر کرم کہ جسے

سفر کا شوق ہو لیکن سفر کا یارا نہ ہو


حنیفؔ میں بھی کروں اب کے اہتمامِ سفر

کہیں اُدھر سے مری سمت بھی اشارا نہ ہو

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

دِل سے اوہام مٹے فکر نے رستہ پایا

دونوں ہاتھوں میں ہے اب آپؐ کا داماں آقاؐ

مرے حضُورؐ اُس اوجِ کمال تک پہونچے

دُعا کو بابِ اثر سے گزار کر دیکھو

سرِ ساحل نظر آتے ہیں سفینے کتنے

خدا گواہ کہ بے حدّ و بے کراں ہیں حضُورؐ

نامِ نامی بھی صدا ہو جیسے

رُواں رُواں مرا روتا ہے چشمِ تر کی طرح

نہ جانے کب سے ہے مجھ کو یہ انتظار حضورؐ

دستِ طلب ہوں دستِ کرم چاہتا ہُوں میں