نہ جانے کب سے ہے مجھ کو یہ انتظار حضورؐ

نہ جانے کب سے ہے مجھ کو یہ انتظار حضورؐ

کہ میرے سر پہ مدینے کا ہو غبار حضورؐ


نگاہ دید سے محرُوم دل تصّرف سے

قرار کِس طرح آئے نہیں قرار حضوؐر


بساطِ فِکر ہے محدُود وصف لا محدُود

نہ ہو سکیں ہیں نہ کر پاؤں گا شمار حضُورؐ


مجھے بھی کاش وہ مدحت کا شوق دے جس نے

دئے ہیں آپ کو اوصاف بے شمار حضوؐر


حضورؐ آپ کا صدقہ ہے کارگاہِ وجُود

اسی سے زیست کا قائم ہے اعتبار حضوؐر


حضوؐر آپؐ کے زیرِ قدم ہیں غیب و شہُود

کہ شش جہات کے ہیں مرکزِ قرار حضوؐر


کُچھ اس طرح سے مجھے اذنِ باریابی دیں

کہ آؤں آپؐ کے قدموں میں بار بار حضوؐر

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

سرِ ساحل نظر آتے ہیں سفینے کتنے

وہ ذات بیکس و مجبُور کا سہارا نہ ہو

خدا گواہ کہ بے حدّ و بے کراں ہیں حضُورؐ

نامِ نامی بھی صدا ہو جیسے

رُواں رُواں مرا روتا ہے چشمِ تر کی طرح

نہ جانے کب سے ہے مجھ کو یہ انتظار حضورؐ

دستِ طلب ہوں دستِ کرم چاہتا ہُوں میں

بیک نگاہ و جلوہ بہم نظر آیا

خود جو لکھّوں تو یہی حسبِ طبیعت لکھّوں

خدا گواہ کبھی محترم نہیں ہوتا