خود جو لکھّوں تو یہی حسبِ طبیعت لکھّوں

خود جو لکھّوں تو یہی حسبِ طبیعت لکھّوں

اپنی قسمت میں مدینے کی زیارت لکھّوں


زندگی گزری ہے بے فیض سخن سازی میں

اب جو لکھوں تو فقط آپؐ کی مدحت لکّھوں


عمر بھر بس اسی عالم میں رہیں دست و دہن

آپؐ کا ذکر کروں آپؐ کی سیرت لکھّوں


آپؐ محبُوب خلائق ہیں خدا آپؐ کا ہے

اور کیا اس کے سوا آپؐ کی نسبت لکھّوں


آپؐ کے سامنے ہے نامۂ اعمال مرا

کس طرح خُود کو سزاوارِ شفاعت لکھّوں


پے بہ پے حکم عدولی پر بہا کر آنسو

آپؐ کے خُلق کو بخشش کی ضمانت لکھّوں


بسکہ معیارِ سخاوت ہے اُنہیںؐ سے قائم

سب سخی کہتے ہیں اُن کو میں سخاوت لکھّوں


جس کو جو کچھ بھی ملا اُنؐ کے ہی صدقے میں ملا

اُنؐ کے دَر کو بھی خدا کا درِ دولت لکھّوں


مشعلِ نُور ہے وؐہ ذات یہ سب جانتے ہیں

میں تو اُس نام کو بھی شمعِ ہدایت لکھّوں

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

نامِ نامی بھی صدا ہو جیسے

رُواں رُواں مرا روتا ہے چشمِ تر کی طرح

نہ جانے کب سے ہے مجھ کو یہ انتظار حضورؐ

دستِ طلب ہوں دستِ کرم چاہتا ہُوں میں

بیک نگاہ و جلوہ بہم نظر آیا

خدا گواہ کبھی محترم نہیں ہوتا

کیا مرتبہ بیاں ہو رسالت مآبؐ کا

زباں پر مری وردِ صلِّ عَلیٰ ہے

زہے نصیب اُنہیںؐ ربط حالِ زار سے ہے

پتا خدا کا خدا کے نبیؐ سے ملتا ہے