خدا گواہ کبھی محترم نہیں ہوتا

خدا گواہ کبھی محترم نہیں ہوتا

وہ دل کہ جس پہ وہ نقشِ قدم نہیں ہوتا


زہے نصیب کہ مجھ پہ نظر ہے آقاؐ کی

ہر ایک قلب تو شایانِ غم نہیں ہوتا


درِ حضورؐ پہ گریہ ہی کام آتا ہے

زباں کو حوصلۂ عرضِ غم نہیں ہوتا


جو دِل دیا ہے تو اُنؐ کی طلب بھی دے یا رب

طلب نہ ہو تو کرم بھی کرم نہیں ہوتا


وہ در عجیب ہے اس در سے جو بھی ملتا ہے

کسی کی وسعتِ داماں سے کم نہیں ہوتا


مرے حُضورؐ کا مسجُود ہے مرا مسجُود

سرِ نیاز کہیں اور خم نہیں ہوتا


وہ نام سینہ بہ سینہ سفر میں ہے اب بھی

یہ فیض وہ ہے جو بخشش سے کم نہیں ہوتا


حنیفؔ اُنؐ کے غلاموں کو ناز ہے اُنؐ پر

غلام ایسا کہیں محترم نہیں ہوتا

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

رُواں رُواں مرا روتا ہے چشمِ تر کی طرح

نہ جانے کب سے ہے مجھ کو یہ انتظار حضورؐ

دستِ طلب ہوں دستِ کرم چاہتا ہُوں میں

بیک نگاہ و جلوہ بہم نظر آیا

خود جو لکھّوں تو یہی حسبِ طبیعت لکھّوں

کیا مرتبہ بیاں ہو رسالت مآبؐ کا

زباں پر مری وردِ صلِّ عَلیٰ ہے

زہے نصیب اُنہیںؐ ربط حالِ زار سے ہے

پتا خدا کا خدا کے نبیؐ سے ملتا ہے

راہِ حق میں جو سرِ راہ مدینہ آیا