بیک نگاہ و جلوہ بہم نظر آیا

بیک نگاہ و جلوہ بہم نظر آیا

درِ حبیبؐ سے بامِ حرم نظر آیا


زہے نصیب کہ اکثر مُجھے کھُلی آنکھوں

دیارِ پاکِ شہِؐ محترم نظر آیا


اُنہیںؐ کے در پہ پہنچ کر کرم کی بھیک مِلی

اُنہیںؐ کے قدموں میں اپنا بھرم نظر آیا


نظر جُھکائے میں فکرِ مآل میں گم تھا

نظر اُٹھی تو وہ بابِ کرم نظر آیا


بنا لیا ہے اُسے زندگی نے اپنا شعار

جہاں کہیں بھی وہ نقشِ قدم نظر آیا


نہ جانے کون سی منزل تھی شب مرے آقاؐ

کہ قلب آپؐ کے زیرِ قدم نظر آیا


حنیفؔ روضۂ اقدس کی جالیوں کے قریب

خدا کا نُور خدا کی قسم نظر آیا

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

خدا گواہ کہ بے حدّ و بے کراں ہیں حضُورؐ

نامِ نامی بھی صدا ہو جیسے

رُواں رُواں مرا روتا ہے چشمِ تر کی طرح

نہ جانے کب سے ہے مجھ کو یہ انتظار حضورؐ

دستِ طلب ہوں دستِ کرم چاہتا ہُوں میں

خود جو لکھّوں تو یہی حسبِ طبیعت لکھّوں

خدا گواہ کبھی محترم نہیں ہوتا

کیا مرتبہ بیاں ہو رسالت مآبؐ کا

زباں پر مری وردِ صلِّ عَلیٰ ہے

زہے نصیب اُنہیںؐ ربط حالِ زار سے ہے