کیا مرتبہ بیاں ہو رسالت مآبؐ کا

کیا مرتبہ بیاں ہو رسالت مآبؐ کا

کیسے حساب ہو کرمِ بے حساب کا


پیشِ نظر ہے قبلِ نبّوت کی زندگی

دیباچہ پڑھ رہا ہوں خدا کی کتاب کا


ہر دَور ہر دیار ہے جس کے محیط میں

قرآں وہ معجزہ ہے رسالت مآبؐ کا


ہر لحظہ سامنے ہیں مدینے کے بام و در

میں اور کیا بتاؤں سبب اضطراب کا


ہم سے کہیں زیادہ ہے اُنؐ کو ہماری فکر

ہم کو تو خوف تک نہیں روزِ حساب کا


مجھ سے گناہگار پہ رحمت حضوؐر کی

ذرّے کا ہے نصیب کرم آفتاب کا


آقاؐ ہمارے دورِ جہالت پہ بھی نظر

پھر حال ہے خراب جہانِ خراب کا


قدموں میں منہ چھپانے کو آیا ہے اک غلام

آقاؐ سلام لیجئے چشمِ پُر آب کا


پیشِ خدا چلو تو چلو اس طرح حنیفؔ

چمکے جبیں پہ نقش درِ مستجاب کا

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

نہ جانے کب سے ہے مجھ کو یہ انتظار حضورؐ

دستِ طلب ہوں دستِ کرم چاہتا ہُوں میں

بیک نگاہ و جلوہ بہم نظر آیا

خود جو لکھّوں تو یہی حسبِ طبیعت لکھّوں

خدا گواہ کبھی محترم نہیں ہوتا

زباں پر مری وردِ صلِّ عَلیٰ ہے

زہے نصیب اُنہیںؐ ربط حالِ زار سے ہے

پتا خدا کا خدا کے نبیؐ سے ملتا ہے

راہِ حق میں جو سرِ راہ مدینہ آیا

اب اس منزل پہ عمر مختصر ہے