راہِ حق میں جو سرِ راہ مدینہ آیا

راہِ حق میں جو سرِ راہ مدینہ آیا

ایسا محسُوس ہوا عرش کا زینہ آیا


اتنی دُوری پہ بھی یہ قرب زہے میرے نصیب

بس تصّور ہی کیا تھا کہ مدینہ آیا


اک تمنا میں برستی رہیں پہروں آنکھیں

آپؐ کی یاد میں جب یاد مدینہ آیا


آپؐ کے فکر و عمل کی یہ بلندی یہ مقام

دیکھنے والوں کو جینے کا قرینہ آیا


خواب میں تو نظرآتا ہے مدینہ لیکن

آنکھ کھولُوں تو یہ دیکھوں کہ مدینہ آیا


جانے کِس سمت لئے جاتی ہے دُنیا ہم کو

راہ میں کعبہ ملا ہے نہ مدینہ آیا


ہم نے سیکھے تو ہیں ‘ برتے نہیں آدابِ سفر

اب گلہ کیا ہے جو طوفاں میں سفینہ آیا

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

خدا گواہ کبھی محترم نہیں ہوتا

کیا مرتبہ بیاں ہو رسالت مآبؐ کا

زباں پر مری وردِ صلِّ عَلیٰ ہے

زہے نصیب اُنہیںؐ ربط حالِ زار سے ہے

پتا خدا کا خدا کے نبیؐ سے ملتا ہے

اب اس منزل پہ عمر مختصر ہے

تمام عمر اسی ایک کام میں گزرے

کوئی کہیں ہو اگر آپؐ کی نگاہ میں ہے

یہ کس کی تشریف آوری پر بہار مژدہ سنا گئی ہے

ایک عجیب کیفیت قلب و نظر کے ساتھ ہے