دستِ طلب ہوں دستِ کرم چاہتا ہُوں میں

دستِ طلب ہوں دستِ کرم چاہتا ہُوں میں

غم تو بہت ہیں آپؐ کا غم چاہتا ہُوں میں


زادِ سفر بھی چاہئے اذنِ سفر کے ساتھ

مجھ پر کرم ہے اور کرم چاہتا ہُوں میں


اے رہنمائے انفس و آفاقِ کائنات

بس آپؐ ہی کے نقش قدم چاہتا ہوں میں


رحمت مآبؐ دیدہ و دِل پر بھی اِک نگاہ

دل کا گداز آنکھ کا نم چاہتا ہوں میں


کعبہ ہو میرے دِل میں مدینہ نگاہ میں

دونوں تجلّیوں کو بہم چاہتا ہُوں میں


آقاؐ عطا ہو مُجھ کو بھی عرفانِ بندگی

اپنی نظر میں اپنا بھرم چاہتا ہوں میں


لکھنی ہے ذرّہ ذرّہ پہ مدحِ حبیبِؐ پاک

شایانِ شان لوح و قلم چاہتا ہوں میں


ہر لحظہ محوِ یادِ خدا ہوں مگر حضوؐر

کیسے کہوں کہ آپؐ کو کم چاہتا ہوں میں

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

وہ ذات بیکس و مجبُور کا سہارا نہ ہو

خدا گواہ کہ بے حدّ و بے کراں ہیں حضُورؐ

نامِ نامی بھی صدا ہو جیسے

رُواں رُواں مرا روتا ہے چشمِ تر کی طرح

نہ جانے کب سے ہے مجھ کو یہ انتظار حضورؐ

بیک نگاہ و جلوہ بہم نظر آیا

خود جو لکھّوں تو یہی حسبِ طبیعت لکھّوں

خدا گواہ کبھی محترم نہیں ہوتا

کیا مرتبہ بیاں ہو رسالت مآبؐ کا

زباں پر مری وردِ صلِّ عَلیٰ ہے