سرِ ساحل نظر آتے ہیں سفینے کتنے

سرِ ساحل نظر آتے ہیں سفینے کتنے

میرے آقاؐ نے بسائے ہیں مدینے کتنے


اس حقیقت کو تو جبریلِ امیں سے پوچھو

زیرِ پا آئے ہیں معراج میں زینے کتنے


کتنی تاریک فضائیں تھیں دِل و جاں پہ محیط

روشنی آئی تو روشن ہوئے سینے کتنے


کِس قدر اوج پہ پہنچا ہے غلاموں کا نصیب

پرتوِ مہر سے چمکے ہیں نگینے کتنے


آپؐ کے نقشِ قدم سامنے رکھ کر دیکھو

پائے ہیں زیست نے جینے کے قرینے کتنے


میرا ایماں مرا قرآں ، مرا کعبہ ‘ مرا دل

مجھ پہ احسان کئے میرے نبیؐ نے کتنے


آپؐ کی اک نگہِ لُطف کے صدقے میں حنیفؔ

کیا بتاؤں کہ ہیں سینے میں دفینے کتنے

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

یارب یہ تمنّا ہے کہ نازل ہو وہ ہم پر

دِل سے اوہام مٹے فکر نے رستہ پایا

دونوں ہاتھوں میں ہے اب آپؐ کا داماں آقاؐ

مرے حضُورؐ اُس اوجِ کمال تک پہونچے

دُعا کو بابِ اثر سے گزار کر دیکھو

وہ ذات بیکس و مجبُور کا سہارا نہ ہو

خدا گواہ کہ بے حدّ و بے کراں ہیں حضُورؐ

نامِ نامی بھی صدا ہو جیسے

رُواں رُواں مرا روتا ہے چشمِ تر کی طرح

نہ جانے کب سے ہے مجھ کو یہ انتظار حضورؐ