رکھے جو مدینے کو قلم پیشِ نظر اور

رکھے جو مدینے کو قلم پیشِ نظر اور

نکلیں گے سرِ بحرِ ثناء لعل و گُہر اور


تسکینِ فدایانِ رخِ یار کی خاطر

اے گلشنِ فردوس تسلی سے سنور اور


دے کانپتے ہونٹوں سے وہ زہراء کا وسیلہ

خیراتِ کرم چاہئیے منگتے کو اگر اور


بے فائدہ تکرار بشر کو نہیں زیبا

تجسیمِ بشر اور ہے تصویرِ بشر اور


خوشبو کی معیّت میں کبھی تو کوئی قاصد

لائے گا مدینے سے کسی روز خبر اور


اُگتے ہیں فقط ماہِ مدینہ کی عطا سے

ہر بار مِرے نخلِ تخیّل پہ ثمر اور


تشبیہہْ جو دیتا ہے تِرے رخ کو قمر سے

وہ سوچے ابھی واقعہِ شقِّ قمر اور


لا ریب کہ آئیں گے تبسم شہِ والا

چمکاؤ قنادیلِ درودی سے یہ گھر اور

دیگر کلام

حالتِ زار سے واقف ہے خطا جانتی ہے

مشکل میں پڑی ہے بخدا جانِ تبسم

جو یادِ شہرِ نبی سے کشید ہوتے ہیں

ہر کوئی یہ کہتا ہے ترا ہونے سے پہلے

جیسے جیسے نور ظاہر آپ کا ہوتا رہا

حرکت میں قلم اُن کی عطاؤں کے سبب ہے

دنیا کی کشمکش میں نہ فکرِ وباء میں ہم

اگر پھر سے مدینے کی طرف ہم چل پڑے ہوتے

اتنی کشش کہاں بھلا باغِ ارم میں ہے

جب لگا آنکھ میں موسم ذرا صحرائی ہے