دنیا کی کشمکش میں نہ فکرِ وباء میں ہم

دنیا کی کشمکش میں نہ فکرِ وباء میں ہم

یہ سال بھی گزاریں گے مدح و ثناء میں ہم


ہر سال حاضری کی سند دستخط شدہ

اِس سال جا کے لائیں گے دستِ دعا میں ہم


مکّے میں گزریں کاش کہ ذوالحج کے رات دن

رمَضان جب گزار لیں شہرِ عطا میں ہم


تیرے قریب ہی کہیں اے آفتابِ حسن !

تھامیں رکھیں گے فکر و قلم کی لگامیں ہم


آلِ عبا کے عشق میں رہتے ہیں ہر گھڑی

گویا کہ رہ رہے ہیں دلِ مصطفٰی میں ہم


آواز آئی کون بچائے گا دیں مِرا

بولے حسین وادئ کرب و بلا میں ہم


کونین کے حسین نظاروں سے پوچھ لو

کیوں گم ہیں شوقِ دیدِ رخِ والضُّحٰی میں ہم


بس مقصدِ حیاتِ تبسم یہی تو ہے

بِیتائیں قربِ گنبدِ خضرٰی میں شامیں ہم

دیگر کلام

جو یادِ شہرِ نبی سے کشید ہوتے ہیں

ہر کوئی یہ کہتا ہے ترا ہونے سے پہلے

جیسے جیسے نور ظاہر آپ کا ہوتا رہا

رکھے جو مدینے کو قلم پیشِ نظر اور

حرکت میں قلم اُن کی عطاؤں کے سبب ہے

اگر پھر سے مدینے کی طرف ہم چل پڑے ہوتے

اتنی کشش کہاں بھلا باغِ ارم میں ہے

جب لگا آنکھ میں موسم ذرا صحرائی ہے

پڑھتا ہوں جس طرح میں دیارِ نبی کا خط

دریائے ہجر میں ہے سفینہ تِرے بغیر