جب لگا آنکھ میں موسم ذرا صحرائی ہے

جب لگا آنکھ میں موسم ذرا صحرائی ہے

بن کے رحمت کی گھٹا آپ کی یاد آئی ہے


اُس کی آنکھیں ہیں مسیحائے مریضانِ جہاں

جو مریضِ رُخِ آقائی و مولائی ہے


حسنِ جنت سے بہل ہی نہیں سکتی وہ نظر

آپ کے نقشِ کفِ پا کی جو شیدائی ہے


مشک و عنبر کا پرستار تھا ذوقِ دلِ من

میں نے پھر خاکِ مدینہ اِسے دکھلائی ہے


شہرِ طیبہ کی ہوائیں جو سکوں دیتی ہیں

غنچہ و گل نے کہاں ایسی ادا پائی ہے


عقل والوں کی جبینوں پہ لکھا ہے سُفَھاء

عشق والوں کی جبیں خطبہِ دانائی ہے


آپ آئیں گے تو آقا مجھے آئے گا یقیں

لوگ کہتے ہیں سلامت مِری بینائی ہے


مان کس چیز کا ہے بادِ صبا کو اتنا

کیا مدینے کے مضافات سے ہو آئی ہے ؟


ہے تبسم کے تخیل کو جو معراج نصیب

آپ کے فیضِ تبسم کی یہ رعنائی ہے

دیگر کلام

رکھے جو مدینے کو قلم پیشِ نظر اور

حرکت میں قلم اُن کی عطاؤں کے سبب ہے

دنیا کی کشمکش میں نہ فکرِ وباء میں ہم

اگر پھر سے مدینے کی طرف ہم چل پڑے ہوتے

اتنی کشش کہاں بھلا باغِ ارم میں ہے

پڑھتا ہوں جس طرح میں دیارِ نبی کا خط

دریائے ہجر میں ہے سفینہ تِرے بغیر

جب مدینے کی طرف کوئی نکل پڑتا ہے

مدینہ بس تمہیں اک آستاں معلوم ہوتا ہے

قرآنِ مقدس نے کہا کچھ بھی نہیں ہے