جب مدینے کی طرف کوئی نکل پڑتا ہے

جب مدینے کی طرف کوئی نکل پڑتا ہے

اُس کے پیچھے دلِ بے تاب بھی چل پڑتا ہے


کوئی نا مانے مگر قبلہ صفَت ہے روضہ

دل اُسے تکتے ہی سجدے کو اچھل پڑتا ہے


اے مِرے لفظِ دعا! یاد کرا دوں تجھ کو

سبز رنگت کا بھی رستے میں محل پڑتا ہے


پڑھتا رہتا ہوں درود اُن پہ بصد شوق و ادب

ورنہ سانسوں کی روانی میں خلل پڑتا ہے


کیا مقدّر ہے کہ ذکرِ درِ جانانہ پر

چشمہِ اشک نگاہوں سے اُبل پڑتا ہے


ہم علی والے جو لیتے ہیں ابوبکر کا نام

اِس سے کیوں گردنِ بد بخت میں بَل پڑتا ہے


عرش والے بھی کریں اُس کے مقدّر کو سلام

قُرْعہ جس شخص کا طیبہ کا نکل پڑتا ہے


مدحتِ شاہِ عرب میں ہے تبسم وہ نشہ

اب مِرا دل نہ فسانہ نہ غزل پڑھتا ہے

دیگر کلام

اگر پھر سے مدینے کی طرف ہم چل پڑے ہوتے

اتنی کشش کہاں بھلا باغِ ارم میں ہے

جب لگا آنکھ میں موسم ذرا صحرائی ہے

پڑھتا ہوں جس طرح میں دیارِ نبی کا خط

دریائے ہجر میں ہے سفینہ تِرے بغیر

مدینہ بس تمہیں اک آستاں معلوم ہوتا ہے

قرآنِ مقدس نے کہا کچھ بھی نہیں ہے

میری سوچوں کی منزل تِری نعت ہے

پِھر گیا سمجھو گناہوں پہ کرم کا جھاڑو

آؤ مل کر سارے عالم کی یوں آرائش کریں