دریائے ہجر میں ہے سفینہ تِرے بغیر

دریائے ہجر میں ہے سفینہ تِرے بغیر

کس کو پکاریں ماہِ مدینہ! تِرے بغیر


کھائی ہو جس نے تیری ہوا، شہرِ مصطفٰی!

اُس کیلئے تو موت ہے جینا تِرے بغیر


اچھا ہوا کہ دل کی جگہ رکھ لیا تمہیں

ورنہ قرار پاتا نہ سینہ تِرے بغیر


سن کیسے لے گا تیرے بِنا کوئی بات رب

جب کوئی بات اُس نے کہی نا تِرے بغیر


جس کو نظر نہ آئے رُخِ قاسمِ ضیاء

نابینا ہی رہے گا وہ بینا تِرے بغیر


بخشا تِرے وجود نے اِس کو یہ مرتبہ

ورنہ ربیع بس ہے مہینہ تِرے بغیر


ہو نہ کرم تمہارا تو لکھتے ہوئے ثناء

آ جاتا ہے قلم کو پسینہ تِرے بغیر


یونہی تو راہ تیری نہیں دیکھتا یہ دل

یثرب کہاں بنا تھا مدینہ تِرے بغیر

دیگر کلام

دنیا کی کشمکش میں نہ فکرِ وباء میں ہم

اگر پھر سے مدینے کی طرف ہم چل پڑے ہوتے

اتنی کشش کہاں بھلا باغِ ارم میں ہے

جب لگا آنکھ میں موسم ذرا صحرائی ہے

پڑھتا ہوں جس طرح میں دیارِ نبی کا خط

جب مدینے کی طرف کوئی نکل پڑتا ہے

مدینہ بس تمہیں اک آستاں معلوم ہوتا ہے

قرآنِ مقدس نے کہا کچھ بھی نہیں ہے

میری سوچوں کی منزل تِری نعت ہے

پِھر گیا سمجھو گناہوں پہ کرم کا جھاڑو