صد شُکر ملی مجھ کو گدائی ترے در کی
حصے میں غلامی مرے آئی ترے در کی
محسوس ہُوا یُوں مجھے حاضر ہوں وہاں میں
جب بات کسی نے ہے سُنائی ترے در کی
نقشہ نہ مرے دل سے نکل پائے گا ہر گِز
تصویر ہے وہ اس میں بسائی ترے در کی
کیا اُس کو غرض دیکھے وہ آرائشِ جنت
نظروں میں چمک جس کی سمائی ترے در کی
قرآن میں جآوُکَ ہے فرمان خدا کا
خالق نے ہے خود راہ دکھائی ترے در کی
وہ صحنِ حرم مسجد و محراب وہ گنبد
دلکش ہے بہت جلوہ نُمائی ترے در کی
جتنے بھی کہ ذی شان ہیں اور جتنے بڑے ہیں
کرتے ہیں بیاں سارے بڑائی ترے در کی
محتاج وگدا یا کہ ہوں سلطانِ زمانہ
ہر ایک نے خیرات ہے پائی ترے در کی
سو بار زیارت ہو تو پھر تِشنہ لبی ہے
رہ رہ کے ہے پھر آس لگائی ترے در کی
جِتنا بھی کروں شُکر ادا اِس پہ وہ کم ہے
مولیٰ نے ہے تنویر دِکھائی ترے در کی
مرزا کے لئے کاش کہ بخشش کی سند ہو
کرتا ہے جو یہ مدح سرائی ترے در کی
شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری
کتاب کا نام :- حروفِ نُور