سر شام گنبدِ سبز تک جو با احترام نظر گئی
تمہیں کیا بتاؤں جو اس گھڑی دل مضطرب پہ گزر گئی
جو تجلیوں کا نزول تھا ‘ مری روح میں وہ سما گیا
جو فضا میں نکہت خا ص تھی وہ مشامِ جاں تک اتر گئی
جو تمام نکہت و نور ہے ‘ مجھے اس دیار میں یوں لگا
کہ سواری میرے حضور ﷺ کی ابھی اس طرف سے گزر گئی
میں درِ رسول ﷺ تک آگیا ‘ مجھے اور کچھ نہیں چاہیے
مری آنکھ بجھ گئی تو کیا‘ مری زندگی تو سنور گئی
مجھے مل گئیں مری منزلیں ‘ کبھی یہ حرم ‘کبھی وہ حرم
کوئی روشنی مرے ساتھ تھی ‘ مَیں جدھر گیا وہ اُدھر گئی
مرے قافلے نے ستم کیا ‘ مجھے آستاں سے اٹھا لیا
وہ سکونِ قلب و نظر گیا ‘ وہ بہارِ شام وسحر گئی
یہ جسد ہے میرا جو گھر میں ہے ‘ مری روح اب کہیں اور ہے
مِری بات اس نے سنی نہیں ‘ وہ حجاز ہی میں ٹھہر گئی
شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم
کتاب کا نام :- زبُورِ حرم