سر شام گنبدِ سبز تک جو با احترام نظر گئی

سر شام گنبدِ سبز تک جو با احترام نظر گئی

تمہیں کیا بتاؤں جو اس گھڑی دل مضطرب پہ گزر گئی


جو تجلیوں کا نزول تھا ‘ مری روح میں وہ سما گیا

جو فضا میں نکہت خا ص تھی وہ مشامِ جاں تک اتر گئی


جو تمام نکہت و نور ہے ‘ مجھے اس دیار میں یوں لگا

کہ سواری میرے حضور ﷺ کی ابھی اس طرف سے گزر گئی


میں درِ رسول ﷺ تک آگیا ‘ مجھے اور کچھ نہیں چاہیے

مری آنکھ بجھ گئی تو کیا‘ مری زندگی تو سنور گئی


مجھے مل گئیں مری منزلیں ‘ کبھی یہ حرم ‘کبھی وہ حرم

کوئی روشنی مرے ساتھ تھی ‘ مَیں جدھر گیا وہ اُدھر گئی


مرے قافلے نے ستم کیا ‘ مجھے آستاں سے اٹھا لیا

وہ سکونِ قلب و نظر گیا ‘ وہ بہارِ شام وسحر گئی


یہ جسد ہے میرا جو گھر میں ہے ‘ مری روح اب کہیں اور ہے

مِری بات اس نے سنی نہیں ‘ وہ حجاز ہی میں ٹھہر گئی

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

مجھ سے مری خطاؤں کی لذّت نہ پوچھیے

ہوا جلوہ فرما نگارِ مدینہ

غم سے آزاد کیا عشقِ نبی ﷺ نے ہم کو

ایک عاصی آج ہوتا ہے ثناخوانِ رسولؐ

فلک سے درود و سلام آرہا ہے

اک مسافر بعد تکمیلِ سفر واپس ہوا

حج بیت اللہ کے رسمی سفر سے فائدہ؟

راستے بھول گئے بانگِ درا بھول گئے

سوئے ہوئے زخموں کو جگا کیوں نہیں دیتے

دلوں کی جوت جگا دو کہ روشنی ہو جائے