راستے بھول گئے بانگِ درا بھول گئے
قافلے مشورہ ء راہنما بھول گئے
ایسے نادان مُسافر کہیں دیکھے نہ سنے
اپنی سمجھی ہوئی منزل کا پتہ بھول گئے
داعئ حقﷺ کو یہ شکوہ ہے حرم والوں سے
جاں نثارانِ وفا عہدِ وفا بھول گئے
ہم یہ کہتے ہیں کہ بندے ہیں خدا کے‘ لیکن
کیا ہے فرمودہء محبوبِ خدا بھول گئے
عیشِ دوراں نے کیا ہم کو خدا سے غافل
کیا ہے اس جرمِ تغافل کی سزا بھول گئے
اپنی تقدیر کو الزام دیئے جاتے ہیں
اور اس فکر میں ہم اپنی خطا بھول گئے
ایسے کھو گئے ہم حرص و ہوا میں اقبؔال
مسلک و شیوہء تسلیم و رضا بھول گئے
شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم
کتاب کا نام :- زبُورِ حرم