راستے بھول گئے بانگِ درا بھول گئے

راستے بھول گئے بانگِ درا بھول گئے

قافلے مشورہ ء راہنما بھول گئے


ایسے نادان مُسافر کہیں دیکھے نہ سنے

اپنی سمجھی ہوئی منزل کا پتہ بھول گئے


داعئ حقﷺ کو یہ شکوہ ہے حرم والوں سے

جاں نثارانِ وفا عہدِ وفا بھول گئے


ہم یہ کہتے ہیں کہ بندے ہیں خدا کے‘ لیکن

کیا ہے فرمودہء محبوبِ خدا بھول گئے


عیشِ دوراں نے کیا ہم کو خدا سے غافل

کیا ہے اس جرمِ تغافل کی سزا بھول گئے


اپنی تقدیر کو الزام دیئے جاتے ہیں

اور اس فکر میں ہم اپنی خطا بھول گئے


ایسے کھو گئے ہم حرص و ہوا میں اقبؔال

مسلک و شیوہء تسلیم و رضا بھول گئے

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

ایک عاصی آج ہوتا ہے ثناخوانِ رسولؐ

فلک سے درود و سلام آرہا ہے

سر شام گنبدِ سبز تک جو با احترام نظر گئی

اک مسافر بعد تکمیلِ سفر واپس ہوا

حج بیت اللہ کے رسمی سفر سے فائدہ؟

سوئے ہوئے زخموں کو جگا کیوں نہیں دیتے

دلوں کی جوت جگا دو کہ روشنی ہو جائے

اک جاں نواز خوشبو محسوس کر رہا ہوں

ہر پیمبر کا عہدہ بڑا ہے لیکن آقاﷺ کا منصب جُدا ہے

نبی ﷺ کو چاہنے والے غمِ دنیا نہیں کرتے