دلوں کی جوت جگا دو کہ روشنی ہو جائے

دلوں کی جوت جگا دو کہ روشنی ہو جائے

بجھے چراغ جلادو کہ روشنی ہو جائے


تمہارے پاس اگر اب بھی کچھ تبسم ہیں

انہیں لبوں پہ سجا دو کہ روشنی ہو جائے


تم اپنے گھر میں جو خوشیاں چھپائے بیٹھے ہو

وہ غم کدوں میں لٹا دو کہ روشنی ہوجائے


جو زخم سینوں میں روشن ہیں مدّت سے

وہ زخم سب کو دکھا دو کہ روشنی ہو جائے


اگر چراغ بھی روشن نہ کرسکیں گھر کو

تو گھر میں آگ لگا دو کہ روشنی ہو جائے


بصدِ ادب شہ کونینﷺ سے یہ عرض کرو

چراغِ طور جلادو کہ روشنی ہو جائے


اب انتظارِ سحر کی کسی میں تاب نہیں

نقابِ رُخ سے اٹھا دو کہ روشنی ہوجائے


تمہارے بس میں اگر اور کچھ نہ ہو اقبؔال

تو ایک نعت سنا دو کہ روشنی ہو جائے

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

سر شام گنبدِ سبز تک جو با احترام نظر گئی

اک مسافر بعد تکمیلِ سفر واپس ہوا

حج بیت اللہ کے رسمی سفر سے فائدہ؟

راستے بھول گئے بانگِ درا بھول گئے

سوئے ہوئے زخموں کو جگا کیوں نہیں دیتے

اک جاں نواز خوشبو محسوس کر رہا ہوں

ہر پیمبر کا عہدہ بڑا ہے لیکن آقاﷺ کا منصب جُدا ہے

نبی ﷺ کو چاہنے والے غمِ دنیا نہیں کرتے

ہے دیار نبی ﷺ تو ہمارا وطن

قرارِ دل و جاں مدینے کی گلیاں