شوقِ طلب نہاں نہاں حرفِ سخن جلی جلی

شوقِ طلب نہاں نہاں حرفِ سخن جلی جلی

حسن ہے بات کا یہی بات یہی بھلی بھلی


میں ہی ترا گدا نہیں ، پھرتے ہیں تری بھیک کو

خسرویء و شہنشہی ، کاسہ لیے گلی گلی


پھیل گئی حدودِ صبح شب کو بھی طول ہو گیا

تیرے کرم کی بات جب لب سے مرے چلی چلی


رُتبۂ سگ جسے ملے تیرے دیار میں اُسے

اہلِ خرد پکاریں سگ ، اہلِ جنوں ولی ولی


کیسے مدینہ چھوڑ دوں جب کہ تیرے شہر کے لوگ

پیار کریں قدم قدم ، بات کریں بھلی بھلی

شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری

کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب

دیگر کلام

جلوؤں کا وہ ہجوم کے بینائی چھن گئی

اشعارِ ادیب

نام محمد ایسا یکتا جو یکتا سے بھی آگے

دکھایا جب زلیخا نے جمال ِ حضرت یوسف

رُخ پہ نقاب ڈال کر خوب کہا کے دیکھ لے

مری مژگاں نے پیے جام مرے اشکوں کے

جانا جو مدینے بادِ صبا پیشِ محبوب خدا جانا

غم ندامت درد آنسو اور بڑھ جاتے ہیں جب

گنبد خضریٰ کو ہر دم اس لیے دیکھا کرو

وہ حسن بے نقاب ہوا بارہا مگر