مری مژگاں نے پیے جام مرے اشکوں کے

مری مژگاں نے پیے جام مرے اشکوں کے

عظمت عشق کو مٹی میں ملانے نہ دیا


ضبط غم پاسِ ادب کے لیے لازم رکھا

جی بھر آیا تھا مگر اشک بہانے نہ دیا


عشق زندہ ہے اسی آتشِ فرقت کے سبب

خود جلے خوب مگر اس کو بجھانے نہ دیا


آئے جس وقت نظر نقشِ کفِ پائے رسول

میں نے بھی وقت کو پھر ہاتھ سے جانے نہ دیا


جب سنا شاہِ اُمم سوئے گنہ گار چلے

شوقِ دیدار نے عصیاں کو چھپانے نہ دیا


میں تو لوٹ آیا مدینے کی زیارت سے ادیبؔ

دل کو واپس مرے اُس شہر نے آنے نہ دیا

شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری

کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب

دیگر کلام

اشعارِ ادیب

نام محمد ایسا یکتا جو یکتا سے بھی آگے

دکھایا جب زلیخا نے جمال ِ حضرت یوسف

رُخ پہ نقاب ڈال کر خوب کہا کے دیکھ لے

شوقِ طلب نہاں نہاں حرفِ سخن جلی جلی

جانا جو مدینے بادِ صبا پیشِ محبوب خدا جانا

غم ندامت درد آنسو اور بڑھ جاتے ہیں جب

گنبد خضریٰ کو ہر دم اس لیے دیکھا کرو

وہ حسن بے نقاب ہوا بارہا مگر

درود تاج کے الفاظ جن کی مدحت میں