تقدیر کے سب لعل و گہر لے کے چلا ہوں
آقاؐ کی عنایت کی نظر لے کے چلا ہوں
تحفے میں عقیدت کا ثمر لے کے چلا ہوں
آقاؐ کی عنایت کی نظر لے کے چلا ہوں
جس سے بھی سنی بات مدینے کی فضا کی
اس شخص کی صحبت کا اثر لے کے چلا ہوں
کافی ہے مجھے آپؐ کا بس اذنِ حضوری
میں زادِ سفر،مال نہ زر لے کے چلا ہوں
طاہرؔ کو عطا اپنی غلامی وہ کریں گے
دل میں یہی امّیدِِ سفر لے کے چلا ہوں
کھلتے ہیں گلاب انؐ سے، مہکتے ہیں انھیؐ سے
میں انؐ کی طرف اپنا ہنر لے کے چلا ہوں
پھولوں کو مہکنے کی ادا آپؐ نے بخشی
پت جھڑ میں امیدِ گلِ تر لے کے چلا ہوں
تاراجِ خزاں تھا مگر اب ان کے کرم سے
کتنی ہی بہاروں کا اثر لے کے چلا ہوں
اے گنبدِ خضریٰ تیری رحمت کے تصدّق
قسمت میں بہاروں کا ثمر لے کے چلا ہوں
تاریک مقدّر لیے پہنچا تھا میں بطحا
واللہ! مقدّر کی سحر لے کے چلا ہوں
اس دل کی زمیں بانجھ تھی جو روزِ ازل سے
اس پر بھی عنایت کے شجر لے کے چلا ہوں
سرچشمۂ انوارِ بصیرت میں جو ان سے
میں کَور نظر نورِ بصر لے کے چلا ہوں
ہے آپؐ کے قدموں میں مرا گوہرِ مقصود
قدموں میں جھکانے کو یہ سر لے کے چلا ہوں
’’اقرا‘‘ نے کیا مثلِ حرا دل کو ہے روشن
لگتا ہے کہ جبریلؑ کا پر لے کے چلا ہوں
نعلین مبارک کو ہے جس خاک نے چوما
اس خاک کا آنکھوں میں گہر لے کے چلا ہوں
گھر بار تو کیا آپؐ پہ کرنے کو نچھاور
میں قلب و نظر، جان و جگر لے کے چلا ہوں
حائل ہیں حضوری میں اگر چہ میرے عصیاں
میں آپؐ کی رحمت کی خبر لے کے چلا ہوں
جوہر شبِ اسریٰ نے جو عشاق کو بخشا
سوچوں میں وہ اوجِ بشر لے کے چلا ہوں
عشقِ شہِ والا کی عطائوں کے اثر سے
بخشش کا یقیں پیشِ نظر لے کے چلا ہوں
اک خاص سکینت ہے مرے دل کو میسّر
شافع کی شفاعت کا گہر لے کے چلا ہوں
شاعر کا نام :- پروفیسر محمد طاہر صدیقی
کتاب کا نام :- طرحِ نعت