طلوع فجر سے پہلے

طلوع فجر سے پہلے

کتاب عمر کے عنواں نظر کے سامنے آئے


میں بچہ تھا

بہت چھوٹا بہت ناداں


جوار رحمہ للعالمیں میں میرا مسکن تھا

میں جس مٹی پہ چلتا تھا


رسول اللہ کے نقش کف پا سے

معطر تھی


منور تھی

ابھی وہ نخل باقی تھا


ابوبکر و عمرؓ نے جس کا پھل کھایا

کھجور میں کتنی شیریں تھیں


میری قسمت میں جو آئیں

جو پانی سرور کونین پیتے تھے


اس سے میں بھی اپنی تختگی کو رفع کرتا تھا

مرے لب اس کو چھوتے تھے


(وہ میرے واسطے کوثر کا پانی تھا)

بڑی راحت سے میرے دن گزرتے تھے


مدینہ میں

جسے اللہ نے محبوب رکھا ہے


جہاں کے سارے شہروں میں

انہیں یادوں میں غلطاں جا رہا تھا


اور مجھے سے چند قدم کے فاصلے پر

ایک بچہ چل رہا تھا


وہ جیسے میرا بچپن تھا

اچانک وہ پلٹ کر میرے پاس آیا

شاعر کا نام :- ابو الخیر کشفی

کتاب کا نام :- نسبت

دیگر کلام

حنین و بدر کے میدان شاہد ہیں

کبھی اہل دول کے سامنے دامن کو پھیلایا

خداوند امحمد مصطفیٰ کے ابر رحمت کو

تمہارا نام نامی نقش ہے وجدان پر میرے

سمندر کے کنارے چل رہا تھا

ایک احساس فضا پر طاری ہے

تیرے قدموں کی آہٹ

آسماں خاک مدینہ کی سلامی کے لئے

ترا اسم گرامی جب مرے ہونٹوں پہ آتا ہے

کبھی بادل کے رنگوں میں