ان کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیئے ہیں

ان کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیئے ہیں

جس راہ چل دیے ہیں ، کوچے بسا دیئے ہیں


جب آ گئی ہیں جوش رحمت پہ ان کی آنکھیں

جلتے بجھا دیئے ہیں ، روتے ہنسا دیئے ہیں


آنے دیں یا ڈبو دیں اب تو انہی کی جانب

کشتی انہی پہ چھوڑی لنگر اٹھا دیئے ہیں


اللہ ! کیا جہنم اب بھی نہ سرد ہو گا

رو رو کے مصطفے نے دریا بہا دیئے ہیں


ان کے نثار ، کوئی کیسے ہی رنج میں ہو

جب یاد آ گئے ہیں ، سب غم بھلا دیئے ہیں


میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا

دریا بہا دیئے ہیں ، دُر بے بہا دیئے ہیں

شاعر کا نام :- نامعلوم

دیگر کلام

بے خود کیے دیتے ہیں انداز حجابانہ

اب تو بس ایک ہی دُھن ہے کہ مدینہ دیکھوں

جشن آمد رسول اللہ ہی اللہ

لم‌ یات نظیرک فی نظرٍ مثل تو نہ شد پیدا جانا

یہ جو قرآن مبیں ہے رحمتہ اللعالمین ﷺ

ان کا در چومنے کا صلہ مل گیا

کچھ آسرے کسب فیض کے ہیں ، کچھ آئنے کشف نور کے ہیں

کوئی محبوب کبریا نہ ہوا

کس بات کی کمی ہے مولا تری گلی میں

خلق کے سرور ، شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم