کچھ آسرے کسب فیض کے ہیں ، کچھ آئنے کشف نور کے ہیں

کچھ آسرے کسب فیض کے ہیں ، کچھ آئنے کشف نور کے ہیں

عجب سلیقے شہہ زماں کے ، عجب قرینے حضور کے ہیں


حرا سے کرنوں کی جگمگاہٹ ہمارے دل تک پہنچ رہی ہے

یہ گھڑیاں پل پل مسرتوں کی ، یہ لمحے پیہم سرور کے ہیں


میں دل میں جھانکوں تو دیکھتا ہوں جھلک ترے روضہ حسین کی

کہ فاصلے جو نگاہ میں ہیں ، مغالطے نزد و دور کے ہیں


حبیب مولائے کل کے اعجاز و فقر و جود و سخا کے آگے

جو ریزہ ریزہ بکھر رہے ہیں صنم ، متاع غرور کے ہیں


مرے نبی کی نظر مکمل جمال یزداں میں منہمک ہے

مقام سدرہ کی وسعتوں میں کہاں حجابات طور کے ہیں


خدا سے بندے کی قربتوں میں کوئی مزاحم نہیں ہے اصغر

جو اٹھ رہے ہیں گماں کے پردے یہ سب کرشمے حضور ﷺ کے ہیں

شاعر کا نام :- نامعلوم

دیگر کلام

جشن آمد رسول اللہ ہی اللہ

لم‌ یات نظیرک فی نظرٍ مثل تو نہ شد پیدا جانا

یہ جو قرآن مبیں ہے رحمتہ اللعالمین ﷺ

ان کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیئے ہیں

ان کا در چومنے کا صلہ مل گیا

کوئی محبوب کبریا نہ ہوا

کس بات کی کمی ہے مولا تری گلی میں

خلق کے سرور ، شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم

جو فردوس تصور ہیں وہ منظر یاد آتے ہیں

حق نگر آپ ہیں حق نما آپ ہیں