جو محمد ہیں مذمم ان کو کیا کر پائے گا
آپ اپنی موت رشدی ایک دن مرجائے گا
جن کو بخشا رحمتہ للعالمیں رب نے لقب
ان شاء اللہ ان کا ہر گستاخ منہ کی کھائے گا
رشدی تجھ پر ہو گیا ہے مغربی جن کا اثر
یا کہ تیرے دل کے اندر کر لیا شیطاں نے گھر
باعثِ تخلیق عالم جن کی ذاتِ پاک ہے
ان کی عظمت کو ترے ناول سے کیا پہنچے ضرر
ہاں مگر تیرے گلے میں طوقِ لعنت پڑگیا
بو لہب ثانی تو کہلائے گا رشدی عمر بھر
تیری ہاں میں ہاں ملانے والے سارے بد نصیب
روپ میں انسان کے شیطان ہیں سب سر بسر
اے مسلمانو نہ یوں ہو مشتعل اور مضمحل
نطفهء ابلیس ہے رشدی تو پھیلائے گا شر
علم ایسا علمِ نافع ہو نہیں سکتا کبھی
جس کے حامل کو نہ ہو کچھ امتیازِ خیر و شر
وہ محمد مصطفیٰ جن کے سبھی مداح ہیں
جن کے دست پاک میں ہے انتظامِ بحر و بر
جلوہء نورِ ازل ہیں رب کے وہ محبوب ہیں
ان کی کیا توہین کر پائے گا رشدی بے خبر
ہے نجس رشدی تو اس کے سر کی کیوں قیمت لگے
کیوں نہ ہم ذکرِ محمد پہ لٹائیں سیم و زر
لب پہ ہو صل علیٰ کا ذکر نظمی دم بہ دم
اور پڑھو لاحول تم سلمان رشدی نام پر
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا