جو محمد ہیں مذمم ان کو کیا کر پائے گا

جو محمد ہیں مذمم ان کو کیا کر پائے گا

آپ اپنی موت رشدی ایک دن مرجائے گا


جن کو بخشا رحمتہ للعالمیں رب نے لقب

ان شاء اللہ ان کا ہر گستاخ منہ کی کھائے گا


رشدی تجھ پر ہو گیا ہے مغربی جن کا اثر

یا کہ تیرے دل کے اندر کر لیا شیطاں نے گھر


باعثِ تخلیق عالم جن کی ذاتِ پاک ہے

ان کی عظمت کو ترے ناول سے کیا پہنچے ضرر


ہاں مگر تیرے گلے میں طوقِ لعنت پڑگیا

بو لہب ثانی تو کہلائے گا رشدی عمر بھر


تیری ہاں میں ہاں ملانے والے سارے بد نصیب

روپ میں انسان کے شیطان ہیں سب سر بسر


اے مسلمانو نہ یوں ہو مشتعل اور مضمحل

نطفهء ابلیس ہے رشدی تو پھیلائے گا شر


علم ایسا علمِ نافع ہو نہیں سکتا کبھی

جس کے حامل کو نہ ہو کچھ امتیازِ خیر و شر


وہ محمد مصطفیٰ جن کے سبھی مداح ہیں

جن کے دست پاک میں ہے انتظامِ بحر و بر


جلوہء نورِ ازل ہیں رب کے وہ محبوب ہیں

ان کی کیا توہین کر پائے گا رشدی بے خبر


ہے نجس رشدی تو اس کے سر کی کیوں قیمت لگے

کیوں نہ ہم ذکرِ محمد پہ لٹائیں سیم و زر


لب پہ ہو صل علیٰ کا ذکر نظمی دم بہ دم

اور پڑھو لاحول تم سلمان رشدی نام پر

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

پانج پیروں کی جس پر نظر پڑ گئی اس کا رشتہ مدینہ سے جُڑ سا گیا

میں ایک رات گرفتار تھا حرارت میں

کاش ہم منیٰ کے ان شعلوں کو نگل جاتے

مجھے چنا گیا لاکھوں میں آزمائش کو

ہر فرد پوچھتا ہے قیصر جہاں کہاں ہیں ؟

قربانیوں کا درس دیا ہے بشیر نے

یہی دن تھا کہ جب آدم نے اِذنِ عفو پایا تھا

رمضان کا مہینہ ہے ایماں سے منسلک

ماہ و انجم کو پرو کر جو بنایا سہرا

بنا ہے سبطین آج دولہا سجائے سہرا نجابتوں کا