قربانیوں کا درس دیا ہے بشیر نے

قربانیوں کا درس دیا ہے بشیر نے

حقانیت کو اونچا کیا ہے بشیر نے


مرشد کی سنتوں کو نبھایا ہے عمر بھر

سید میاں کا روپ لیا ہے بشیر نے


کسی کا بس نہیں چلتا ہے حکمِ یزداں میں

بدل سکا ہے نہ کچھ بھی نوشتِ برہاں میں


وہ روزہ دار، نمازی، وہ قاریِ قرآں

کہ جو شہید ہوا عین وسط رمضاں میں


قصور اس کا بس اتنا کہ حق پرست تھا وہ

بہت ہی پختہ تھا وہ اپنے دین و ایماں میں


وہ میرا دوست بھی تھا اور پیر بھائی بھی

بہت سی خوبیاں یکجا تھیں ایک انساں میں


وہ سنیت کا مجاہد وہ غازیِ دوراں

فدائے مرشدِ عالی تھا جسم میں جاں میں


نہ جانے کتنوں کو عزت کی زندگی بخشی

مگر شہید ہوا خود مکانِ ویراں میں


یزیدیوں نے گلے پر چلائیں جب چھریاں

بنا حسین کا نائب وہ طرزِ قرباں میں


بشیر احمدِ برکاتی زندہ جاوید

شہید مرتے نہیں درج ہے یہ قرآں میں


بشیر تم کو زمانہ رکھے گا یاد سدا

تمہارا نام ہے شامل صفِ شہیداں میں


پڑھا ہے مرثیہ نظمی نے اپنے بھائی کا

وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ کی برہاں میں

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

میں ایک رات گرفتار تھا حرارت میں

کاش ہم منیٰ کے ان شعلوں کو نگل جاتے

مجھے چنا گیا لاکھوں میں آزمائش کو

ہر فرد پوچھتا ہے قیصر جہاں کہاں ہیں ؟

جو محمد ہیں مذمم ان کو کیا کر پائے گا

یہی دن تھا کہ جب آدم نے اِذنِ عفو پایا تھا

رمضان کا مہینہ ہے ایماں سے منسلک

ماہ و انجم کو پرو کر جو بنایا سہرا

بنا ہے سبطین آج دولہا سجائے سہرا نجابتوں کا

مینارِ نور بن کے جو تیار ہوگیا