کاش ہم منیٰ کے ان شعلوں کو نگل جاتے

کاش ہم منیٰ کے ان شعلوں کو نگل جاتے

کتنے لوگ بچ جاتے، زندگی میں پل جاتے


کوہ طور، ہم نے بھی ایک شعلہ دیکھا ہے

نعت خوانِ احمد تھے ورنہ ہم بھی جل جاتے


وہ منیٰ کا منظر کیا کوئی بھول پائے گا

ماں کی فکر تھی ورنہ بچ کے ہم نکل جاتے


رب نے ہم کو بخشا تھا ایک موقع خدمت کا

اپنی جاں بچانے کو کیوں بھلا پھسل جاتے


رب کا شکر کرتے ہیں والدہ رہیں محفوظ

وہ ضرور جل جاتیں ہم اگر نہ جل جاتے


ہاں حواس پر ہم نے جلد پا لیا قابو

ورنہ آگ سے تن کے زاویے بدل جاتے


ایک سانحہ کہیے یا کہ پھر سزا کہیے

کاش ہم کو عبرت ہو کاش ہم سنبھل جاتے


دائمی سند نظمی تم کو مل گئی حج کی

مہر تم پہ کیا لگتی بچ کے گر نکل جاتے

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

مارہرہ سے ناتا ہے اور مدینہ بھاتا ہے

کیا بیاں ہو شان نظمی گلشن برکات کی

کیسا چمک رہا ہے یہ پنجتن کا روضہ

پانج پیروں کی جس پر نظر پڑ گئی اس کا رشتہ مدینہ سے جُڑ سا گیا

میں ایک رات گرفتار تھا حرارت میں

مجھے چنا گیا لاکھوں میں آزمائش کو

ہر فرد پوچھتا ہے قیصر جہاں کہاں ہیں ؟

جو محمد ہیں مذمم ان کو کیا کر پائے گا

قربانیوں کا درس دیا ہے بشیر نے

یہی دن تھا کہ جب آدم نے اِذنِ عفو پایا تھا