ہمیں کیسی فکر کہ مصطفیٰ ہیں وکِیْلِنَا ہیں کَفیْلِنَا

ہمیں کیسی فکر کہ مصطفیٰ ہیں وکِیْلِنَا ہیں کَفیْلِنَا

کہ خدا کے بعد وہی تو ہیں جو مَجِیْدِنَا جو مُجِیْبِنَا


ملا ایسا رہبر و پیشوا جو ہر اک کے درد کی ہے دوا

وہ حَبِیْبِنَا وہ طَبِیْبِنَا ، وہ طبیبِ روح و قَلوبِنَا


وہ جو کُن فکاں کا سبب بنے وہی تاجدارِ عرب بنے

وہ ہمارے واسطے عونِنَا ، وہ عیا نِنَا و معینِنَا


وہی لذّت شبِ تار میں وہی روشنئ خیا ل میں

وہی شمسنا وہی بدرِنا وہی نجمنا وہی نورِنا


وہ جو سرِّ عشقِ رسو ل ہے وہ بیاں کروں تو میں کیا کہوں

وہ قرآنِناَ وہ حدیثنا ، وہ رکوع نا ، وہ سجودِ نا


ہمیں خستہ حالی کا غم نہیں ، کوئی رنج اور الم نہیں

کہ ہیں چارہ گر وہی غوثِنا وہ غیاثِنا وہ مغیثنا


وہ ہر ایک دور کے رہنما جو گذر گیا جو اب آئے گا

وہ ہی ابتداء وہی منتہا ، وہ قدیمنا وہ جدیدنا


نہ کہے ادب سے زباں مگر ، انہیں سب کے حال کی ہے خبر

خدا نے رُتبے دیئے انہیں ( وہ شہودنا وہ شہیدنا ) وہ علیمنا و خبیرنا


نہ ہو دل میں ظلمتِ شب کا ڈر، رہے لب پہ ورد سدا اگر

کہ حضور آپ ہیں نورنا ، ہیں سراجنا ہیں منیرنا


میری ذات میں میرے نام میں لگے چار چاند کلام میں

مری نعت میں وہ خطیبنا ، وہ فصیحنا وہ بلیغنا


ہمیں خوفِ حشر ادیبؔ کیوں ، کہ انہی کی مدح و ثنا میں ہیں

کہ قرآن جن کے لیے کہے وہ رؤفنا وہ رحیمنا

شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری

کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب

میری نگاہ سے مرے وہم و گماں سے دُور

سجنوں آیا اے ماہِ رمضان

اِذنِ طیبہ عطا کیجئے

گلزارِ مدینہ صلِّ علیٰ، رحمت کی گھٹا سبحان اللہ

سر سوئے روضہ جھکا پھر تجھ کو کیا

برس چالیس گذرے نعت کی محفل سجانے میں

بیڑا محمد والا لیندا اے تاریاں

ہم بناوٹ سے نہیں کہتے کہ ہم تیرے ہیں

یہ بلبل ،یہ تتلی، یہ خوشبو بنا کر

کہیں بستی کہیں صحرا نہیں ہے