میں کہ بے وقعت و بے مایا ہوں

میں کہ بے وقعت و بے مایا ہوں

تیری محفل میں چلا آیا ہوں


آج ہوں میں تیرا دہلیز نشیں

آج کا میں عرش کا ہم سایہ ہوں


چند پل ہوں تیری قربت میں کٹے

جیسے اکِ عمر گزار آیا ہوں


جب بھی میں عرضِ مدینہ پہ چلا

دل ہی دل میں بہت اترایا ہوں


تیرا پیکر ہے کہ اک حالہ نور

جالیوں سے تجھے دیکھ آیا ہوں


کتنی ٹھنڈی ہے تیرے شہر کی دھوپ

خود کو اکسیر بنا لایا ہوں


یہ کہیں خامی ایمان ہی نہ ہو

میں مدینہ سے پلٹ آیا ہوں

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

تصویرِ حسنِ بے نِشاں صلِّ علیٰ صلِّ علیٰ

فیض اُن کے عام ہوگئے

طلب کا منھ تو کس قابل ہے یا غوث

سُنتے ہی رب کی حمد زبانِ حضور سے

اللہ سوہنا اپنیاں صفتاں آپ سناوے

محمد دا رتبہ خدا کولوں پُچھو

کچھ ایسی لطف و کرم کی ہوا چلی تازہ

یہ بلبل ،یہ تتلی، یہ خوشبو بنا کر

کیا ہی ذوق افزا شفاعت ہے تمہاری واہ واہ

کیوں مجھ پہ نہ رحمت کی ہو برسات مسلسل