بازو در عرفاں کا ہے بازوئے محمدﷺ

بازو در عرفاں کا ہے بازوئے محمدﷺ

زنجیر اسی در کی ہے گیسوئے محمدﷺ


قوسین ہیں تفسیر دو ابروئے محمدﷺ

کونین تہ ظل دو گیسوئے محمدﷺ


منظور نظر اس کیے ہے سیر گلستاں

شاید کہ کسی پھول میں ہو بوئے محمدﷺ


امت میں جو مشہور ہے منشور شفاعت

گیسوئے محمدﷺ ہے وہ گیسوئے محمدﷺ


کس طرح زبردست نہ ہو دست محمدﷺ

بازو میں جو ہو قوت بازوئے محمدﷺ


سبطین محمدﷺ تھے اگر مصحف ناطق

قرآن کی تھی رحل دو زانوئے محمدﷺ


حاصل یہ کبھی عرش کو ہوتی نہ بلندی

ہوتا نہ اگر تکیہ پہلوئے محمدﷺ


چار آنکھیں کرے شیر فلک مجھ سے ہے کیا جا

سب جانتے ہیں میں ہوں سگ کوئے محمدﷺ


صحبت کو ہے تاثیر امیر اس میں نہیں شک

اصحاب میں کس طرح نہ ہو خوئے محمدﷺ

شاعر کا نام :- امیر مینائی

زمین و زماں تمہارے لئے

دَم بہ دَم بر ملا چاہتا ہُوں

صدشکر‘ اتنا ظرف مری چشم تر میں ہے

آنکھوں میں ترا شہر سمویا بھی

اے دوست چیرہ دستئ دورِ جہاں نہ پوچھ

السّلام اے سبز گنبد کے مکیں

پھر تذکرۂ خواجۂ ذیشان کیا جائے

گنبدِ آفاق میں روشن ہُوئی شمعِ نجات

ہر ذرّۂ وجود سے اُن کو پُکار کے

بھیج سکوں کا کوئی جھونکا