خدا کے نامِ نامی سے سخن ایجاد کرتا ہوں
کرم یہ بھی ہے اُس کا میں جو اُس کو یاد کرتا ہوں
اُسی کے ذکر سے پاتا ہوں اطمینان کی دولت
اُسی کی آیتوں سے صحنِ جاں آباد کرتا ہوں
وہی زاد نفس میرا، وہیِ فریادرس میرا
میں جب کرتا ہوں اُس کے سامنے فریاد کرتا ہوں
میں عکس اُس کے ہی پاتا ہوں ہر آئینے میں فطرت کے
میں اس کی حکمت و قدرت پہ دل سے صاد کرتا ہوں
مجھے اس میں خوشی اللہ کی محسوس ہوتی ہے
نبیؐ کی نعت سے جب اہلِ حق کو شاد کرتا ہوں
معافی مانگتا ہوں اپنے آقاؐ کے وسیلے سے
میں اپنی جان پر جب بھی کوئی بیداد کرتا ہوں
متاعِ دنیوی سی جنسِ کا سد کے لیے تائبؔ
سکونِ قلب اپنا کیوں عبث برباد کرتا ہوں
شاعر کا نام :- حفیظ تائب
کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب