غمِ زمانہ جو دل سے بنا کے بیٹھ گیا

غمِ زمانہ جو دل سے بنا کے بیٹھ گیا

میں دل اٹھائے مدینے میں جا کے بیٹھ گیا


نظر اٹھی جو مدینے کے تاجِ خضرٰی پر

تو حرف حرف دعا کا دبا کے بیٹھ گیا


کہا گیا مجھے اپنی کتاب پڑھنے کو

اُٹھا میں حشر میں، نعتیں سنا کے بیٹھ گیا


سلام اُس کے مقدر کو عرش والوں کا

جو آستاں سے ترے لو لگا کے بیٹھ گیا


اُٹھائے اُٹھ نہ سکا جالیوں کے آگے سے

نہ جانے دل کو وہاں کیا ہوا کہ بیٹھ گیا


اُسے تو خود مرے آقا نے دی دعائے نجات

جو اہلِ بیت کی کشتی میں آ کے بیٹھ گیا


مریضِ ہجرِ مدینہ کے پاس آ یا طبیب

نگاہیں دیکھیں تو گردن جھکا کے بیٹھ گیا


خیالِ یار جمایا تو اس کے بعد کرم

مرے نصیب میں ڈیرہ جما کے بیٹھ گیا


تبسمِ شہِ محشر کی آرزو لے کر

قریب ہو کے درِ مصطفٰی کے بیٹھ گیا

پیاری ماں مجھ کو تیری دعا چاہیے

مجھ کو تو اَپنی جاں سے بھی

کعبے کی رونق کعبے کا منظر، اللہ اکبر اللہ اکبر

شوقِ طیبہ میں بے قرار ہے دل

ہر پیمبر کا عہدہ بڑا ہے لیکن آقاﷺ کا منصب جُدا ہے

نظر آتے ہیں پھول سب کے سب

کِس کے جلوہ کی جھلک ہے یہ اُجالا کیا ہے

اک بار پھر مدینے عطارؔ جا رہے ہیں

زندگی اپنے لہُو کا نام ہے

بگڑی ہوئی امت کی تقدیر بناتے ہیں