الٰہی واسطہ رحمت کا تُجھ کو

الٰہی واسطہ رحمت کا تُجھ کو

الٰہی واسطہ وُسعت کا تُجھ کو


الٰہی واسطہ عظمت کا تُجھ کو

الٰہی واسطہ قوت کا تُجھ کو


الٰہی وسطہ شوکت کا تُجھ کو

الٰہی واسطہ عزّت کا تُجھ کو


خطائیں بخش دے ساری الٰہی

مصیبت سر پہ ہے بھاری الٰہی


ہر اِک سینے میں دل گھبرا رہا ہَے

کہ شیرازہ بکھرتا جا رہا ہے


اخوّت ہو رہی ہے پارا پارا

سہارا دے سہارا دے سہارا


خطاؤں سے ہماری درگُزر کر

!علاجِ سوزشِ داغِ جگر کر


حوادث پر حوادث آرہے ہیں

کیے پر اپنے ، ہم پچھتا رہے ہیں


جو خامی ہے ہماری دُور فرما

دعاؤں میں اثر دے میرے مولا


وطن کی جان ہی پر بن گئی ہے

بڑی دولت تھی ہاتھوں سے لُٹی ہے


چھُٹا اُمید کا ہاتھوں سے دامن

جلی کچھ اس طرح سے شاخِ گُلشن


بلائے ناگہاں نازل ہوئی ہے

ہر اک سینے میں جاں بے کل ہوئی ہے


زماے بھر میں ہم رُسوا ہوئے ہیں

ہمارے تذکرے کیا کیا ہوئے ہیں


ہوئی ہے کُفر کی یلغار ہم پر

ہماری کیوں چلی تلوار ہم پر


قیامت ہے قیامت آگئی ہے

نگہ افکار کی پتھرا گئی ہے


کہیں اقصیٰ کا ماتم ہو رہا ہے

کہیں حصّہ بد ن کو رو رہا ہے


کہیں اخبار کی سرخی جمی ہے

کہیں دو شیزگی لُوٹی گئی ہے


کوئی بچہ کہیں اغوا ہوا ہے

مرے مولا ہمیں کیا ہوگیا ہے


کہیں گھر کو جَلایا جا رہا ہے

کہیں بھائی کو بھائی کھا رہا ہے


وطن میں گُل کِھلائے جارے ہیں

نئے عنوان لائے جا رہے ہیں


کوئی تخزیب کا پیغام بَر ہے

کوئی دشمن کا منظورِ نظر ہے


!کسی کو غیر سے امداد آئی

!دہائی ہے دہائی ہے دہائی


محافظ دین کے پیرانِ جعلی!

لبادے اوڑھ کر بیٹھے ہیں خالی


غریبوں کی کمائی کھا رہے ہیں

توکل کا بیاں فر ما رہے ہیں


نہ راہی ہیں نہ رستہ آشنا ہیں

بزعمِ خویش پکے رہنما ہیں


مگر ہے رحم کے قابل مُسلماں

کہ تیرا نام لیوا ہے یہ ناداں


مُسلماں کو مٹایا جا رہا ہے

نگہباں کو سُلایا جارہا ہے


گِلہ شِکوہ نہیں یہ اِلتجا ہے

مُسلمانوں سے کیوں ناراض سا ہے


الٰہی یا الٰہی یا الٰہی

ہوئے محبوس کیوں تیرے سپاہی


مُسلماں کو عطا کر سرفرازی

کہ غازی لے کے آئیں اپنے غازی


مسلماں کو بنا سچا مُسلماں

بنے اَب غیب ہی سے کوئی ساماں


مسلماں سے مُسلماں دُور کیوں ہے

ہر اِک اپنی جگہ مجبور کیوں ہے


مُسلماں کا لہو ارزاں ہُوا ہے

چمن توحید کا ویرا ں ہُوا ہے


تِرے محبوبؐ کی محبوب اُمّت

زمانے میں ہوئی غرقِ ندامت


مُسلماں کو عطا کر زورِ حیدرؑ

صفِ دُشمن کو تُو زیر و زبر کر


بجا مِلّت کو تُو اپنے کرم سے

کریمانہ نظر مت پھیر ہم سے


کہ تیرے ہی کرم کا آسرا ہے

وگرنہ پاس اپنے اور کیا ہے


خدا یا بس تِری رحمت ہے درکار

ہمیں معلوم ہے ہم ہیں گنہگار


فقط اِک آسرا باقی ہے تیرا

وگرنہ چار سو چھا یا اندھیرا


گناہوں نے دُعائیں چھین لی ہیں

خطائیں کچھ زیادہ ہم نے کی ہیں


مگر رحمت تِری حاوی غضب پر

کرم کر یا الٰہی اور سب پر


خُدایا اپنی رحمت عام کردے

بہت بگڑا ہُوا ہے کام کردے


کرم کی اِک نظر ہو جانِ عالم

سوالی ہیں ترے باچشمِ پُر نم


تجھے سب اولیاء کا واسطہ ہے

شہیدِؑ کربلا کا واسطہ ہے


علی المرتضؑےٰ کا واسطہ ہے

مُحمّد مُصطفؐےٰ کا واسطہ ہے


مِرے منعم کر اب حاجت روائی

مِرے بادی بس اب ہو رہنمائی


ہٹادے سب کی رغبت ماسِوا سے

محبت ہو تو محبوبِؐ خُدا سے


کہ عاصی ہیں ترے دَر کے سوالی

کوئی کاسہ نہ اب رہ جائے خالی


بھروسہ غیر کا ہم سے اُٹھالے

ہمارا بن ہمیں اپنا بنالے !


تِرے در پر نگوں ہر اِک جبیں ہو

فروزاں قلب میں شمعِ یقیں ہو!


نبیؐ کی آل کا خادم بنا دے

مسلمانوں کو سیدھی رہ دکھادے


ہے تیری ذات حاوی ہر جہاں پر

زمانوں پر زمیں پر آسماں پر


تِرے اسمائے حُسنیٰ کا سہارا

وگرنہ کو ن ہے اپنا ہمارا


حکومت چاہتے ہیں ہم اِلہٰ کی

غلامی مانگتے ہیں مصطفؐےٰ کی


صحابہ کی عقیدت مانگتے ہیں

غِنا ، صدق و عدالت مانگتے ہیں


شجاعت اور دستِ مرتضیٰؑ کی

یہی ہے آرزو اپنی دُعا کی


تو اپنے دوستوں کو حکم فرما

کہ ہوجائیں اِکٹّھے سارے یکجا


وطن تقسیم پھر ہونے نہ پائے

کہیں یہ شمع ہی گُل ہو نہ جائے


عطا کر اپنے سب مخفی خزانے

کہ ہوں آباد اُجڑ ے آشیانے


مریضوں کو مرے مولا شفا دے

غریبوں کو کشائش یا خُدا دے


تجھے ہے واسطہ تیری طلب کا

بنا دے اپنا ذاکر قلب سے سب کا


اسیروں کو مرے مولا رہا کر

کریمانہ نظر میرے خُدا کر


الٰہی بخش دے سب کی خطا کو

قبو لیّت ملے میریِ دعا کو

شاعر کا نام :- واصف علی واصف

کتاب کا نام :- ذِکرِ حبیب

دیگر کلام

میں مکّے میں پھر آگیا یاالٰہی

مجھے بخش دے بے سبب یا الٰہی

مِٹا میرے رنج و اَلَم یاالٰہی

ہمارے دل سے زمانے کے غم مٹا یارب

ہر خطا تو دَرگزر کر بیکس و مجبور کی

یاخدا میری مغفرت فرما

یاالٰہی! دُعا ہے گدا کی

یاخدا! حج پہ بُلا آکے میں کعبہ دیکھوں

تورب ہے مرا میں بندہ ترا سُبْحٰنَ اللہ سُبْحٰنَ اللہ

نہ کوئی رُسوخ و اَثر چاہیے