واصف علی واصف

شبِ فرقت کٹے کیسے سحر ہو

عشقِ احمدؐ سے بشر ہے سرفراز

آپؐ کی چشمِ عنایت پر ہے ناز

کس طرح پردہ اٹھے میرے نبی ؐ کے راز سے

جب آنکھ سے آنسو بہہ نکلیں اور نور نظر آئے دل میں

دَ سے صورت راہ بے صورت دا

اللہ ہو جب اس کا ثنا گر‘ نعت کہوں میں کیسے

خواب کو رفعت ملے ‘ بے بال و پر کو پر ملے

حضورؐ ہی کے کرم سے بنی ہے بات میری

مائل بہ کرم ‘ چشمِ عنایات بھی ہوگی

درِ مصطفیٰؐ پہ سوال ہے درِ مجتبیٰؐ پہ سوال ہے

ؐیا شفیع المذنبیںؐ یا رحمتہ اللعالمیں

جگت گرُو مہاراج ہمارے ، صلّی اللہ علیہ وسلم

!سنگِ در حبیبؐ ہے اور سَر غریب کا

!خاور کہوں کہ بدرِ منّور کہوں تُجھے

وہی ہے باعثِ تخلیقِ ہستئ عالم

دیدارِ ذاتِ پاک ہے چہرہ حضورؐ کا

مُبارک اہلِ ایماں کو کہ ختمُ المرسلیں ؐ آئے

معراج کی رات

کرتے ہیں کرم جس پہ بھی سرکارؐ ِ مدینہ

پڑھو صلِّ علیٰ نبینا صلِّ علیٰ محمدٍؐ

تصویرِ حسنِ بے نِشاں صلِّ علیٰ صلِّ علیٰ

انوار برستے رہتے ہیں اُس پاک نگر کی راہوں میں

دروود سلام کروڑاں جس دی شان ہے عالی

اُچی تھاں تے نیوں لگایا دل میرا پیا ڈردا

توں سلطان زمانے بھر دا میں بردے دا بردا

مَیں مَنیا نال یقین دے ‘ مَیں ویکھیا اکھاں نال

اے ربِّ سمٰوات تیری ذات درا ہے

الف سے اللہ

نہیں ہے لا اِلٰہ کوئی مگر اللہ ، اِلا اللہ