!سنگِ در حبیبؐ ہے اور سَر غریب کا

!سنگِ در حبیبؐ ہے اور سَر غریب کا

کِس اوج پر ہے آج ستارہ نصیب کا


پھر کِس لیے ہے میرے گناہوں کا احتساب

!جب واسطہ دیا ہے تمہارے حبیب ؐ کا


!راہِ فراق میں بھی رفیقِ سفر رہا

زخمِ جگر نے کام کیا ہے طبیب کا


یہ بارگاہِ حُسنِ دو عالم نہ ہو کہیں

ہے پاسباں رقیب یہاں کیوں رقیب کا


!واصفؔ علی تلاش کرے اب کہاں تجھے

دُوری کو جب ہے تجھ سے تعلّق قریب کا

شاعر کا نام :- واصف علی واصف

کتاب کا نام :- ذِکرِ حبیب

شبِ سیاہ میں پُرنور ماہِ تمام آیا

اُن کا خیال دل میں ہے ہر دم بسا ہوا

زندگی یادِ مدینہ میں گزاری ساری

لہجۂِ گل سے عنادل نے ترنم سیکھا

سانس نہ لوں درود بن

مرتبہ یہ ہے خیر الانام آپؐ کا

راستے صاف بتاتے ہیں کہ آپؐ آتے ہیں

خدا کا فضل برسے گا کبھی مایوس مت ہونا

قربان میں اُن کی بخشش کے

میرے حسین تجھے سلام