جمالِ صُبحِ درخشاں میں نُور ہے کِس کا

جمالِ صُبحِ درخشاں میں نُور ہے کِس کا

یہ کس کا حُسن جھلکتا ہے چاند تاروں میں


ہے کِس کی ذات کا سایہ سکوتِ صحرا پر

یہ کس کا ذِکر اُبھرتا ہے آبشاروں میں


خرامِ موجِ صبا میں ہیں خوشبوئیں کِس کی

نئی نویلی رُتوں پر نکھار کِس کا ہے


جلالِ بحر ہے کِس کے جمال کا پر تو

یہ موج موج میں پنہاں وقار کس کا ہے


یہ کون آنکھ میں بھرتا ہے نُور کی کِرنیں

دِلوں کو حوصلے دیتی ہیں برکتیں کِس کی


زباں کو کِس نے تکلّم کے پھُول بخشے ہیں

ہر ایک شے پہ برستی ہیں رحمتیں کِس کی


اُسی کی قُدرتِ کامل کے سب کرشمے ہیں

وہ ایک ذات کہ ہے عقل و فہم سے بالا


بڑائیاں بھی اُسی کی ثنائیں بھی اُس کی

اُسی کی شان ہے سُبحَانَ رَبِّی الَاعلیٰ

شاعر کا نام :- اسلم فیضی

کتاب کا نام :- سحابِ رحمت

دونوں عالم کا داتا ہمارا نبی

بیاں کیوں کر ثنائے مصطَفٰے ہو

ذکر نبی دا کردیاں رہنا چنگا لگدا اے

ذرّے ذرّے کی آغوش میں نور ہے

پُرسان عمل پیشِ خدا کوئی نہ ہوگا

آنکھوں میں ترا شہر سمویا بھی

وہ سُوئے لالہ زار پِھرتے ہیں

حدودِ طائر سدرہ، حضور جانتے ہیں

ذکر تیرا جو عام کرتے ہیں

محمد مظہرِ کامل ہے حق کی شانِ عزّت کا