آج کا دن شہِ دل گیر کا دن ہے لوگو
اکبر و اصغر بے شِیر کا دن ہے لوگو
مظہرِ آیہء تطہیر کا دن ہے لوگو
آج کا دن مِرے شبیر کا دن ہے لوگو
کون شبّیر؟ کئی دن کا وہ پیاسا شبّیر
کون شبّیر؟ محمدؐ کا نواسا شبّیر
کون شبّیر؟ وہی برتر و اعلیٰ شبّیر
کون شبّیر؟ وہی سب سے نرالا شبّیر
کون شبّیر؟ وہی گیسوؤں والا شبّیر
کون شبّیر؟ وہی ناز کا پالا شبّیر
وہ جو آغوشِ رسالت میں پھَلا پھُولا ہے
جسے بھولے گا یہ عالم نہ کبھی بھُولا ہے
شمعِ ایوانِ نبیؐ نُورِ حرم ناصرِ دِیں
رونقِ بزمِ حسن خاتمِ زھرا کا نگیں
وہ مکارم کی اساس اور شرافت کا امیں
چرخ جس کے درِ اقدس پہ جُھکاتا ہے جبیں
اِس کی درگاہ کا وہ جاہ و حشم ہوتا ہے
سَر عقیدت سے شہنشاہ کا خَم ہوتا ہے
مُستند عالمِ تخلیق میں ہے جس کا جمال
جس کا نانا ہے نبیؐ نیرِّ بُرجِ اجلال
جس کا بابا ہے علی شیرِ خدا ماہِ کمال
ہے فلک اُس کی اگر ڈھال تو خنجر ہے ہلال
رن میں غُل ہے کہ چراغِ حرمین آتا ہے
لاڈلا حضرتِ زہرا کا حسین آتا ہے
رُوئے روشن ہے کہ ہے عکسِ جمالِ یزداں
زُلفِ مشکیں ہے کہ خُوشبوئے گُلِ باغِ جناں
قدِ موزوں پہ ہے طُوبیٰ کی بُلندی قرباں
طرزِ رفتار کے صدقے روشِ کون و مکاں
گُفتگو لب پہ جو اللہُ غنی آتی ہے
بُوئے انفاسِ رسولِؐ مدنی آتی ہے
کوئی پیدا نہ ہُوا حامئ دِیں اُس جیسا
کسی سینے میں نہیں عزم و یقیں اُس جیسا
سجدہ کرپائی کہاں کوئی جبیں اُس جیسا
ساری دُنیا میں نہیں کوئی حسیں اُس جیسا
رشکِ صد مہرِ مُبیں جلوہ فشانی اِس کی
غیرتِ یوسفِؐ کنعاں ہے جوانی اِس کی
انبیا سارے شجاعت پہ ہیں اُس کی نازاں
اولیا اُس کے غلام اور ملائک درباں
لڑکھڑاتی ہے اِسی در پہ فصیحوں کی زباں
اِسی چو کھٹ پہ رگڑتے ہیں جبینیں سُلطاں
نہ بٹی ہے نہ بٹے گی نہ کہیں بٹتی ہے
علم و عرفان کی خیرات یہیں بٹتی ہے
اُس کے جلووں سے ہے معمور شبستانِ کرم
اُس کے اک سجدے نے رکّھا ہے نمازوں کا بھرم
اُس کے سَر پر شرف و مجدِ علی کا پرچم
خون ہے اُس کے فروزاں ہوئی قندیلِ حرم
زیست جولاں ہے اُسی زلف کے پیچ و خَم سے
سانس چلتی ہے سماوات کی اُس کے دَم سے
مثلِ واعظ نہیں منبر پہ فقط زمزمہ خواں
زاہدِ خشک کے مانند نہیں سجدہ کُناں
اُس کے سجدے میں سمٹ آئی ہے رُوحِ ایماں
سَر ہے نیزے پہ ، مگر وردِ زباں ہے قرآں
جن کے سجدے تہِ شمشیر ادا ہوتے ہیں
اُن کے اندازِ عبادت ہی جُدا ہوتے ہیں
رن میں جب نعرہ زناں شاہ کی سرکار چلی
سَر قلم کرتی ہوئی تیغِ شرر بار چلی
جس کی طرف کوند گئی شور پڑا مار چلی
رُوح کہتی تھی بدن سے کہ مِرے یار چلی
ہیبت ایسی کہ جسے دیکھ کے چہرہ فَق ہو
شدّت ایسی کہ چٹانوں کا کلیجہ شَق ہو
تیغِ بُرّاں نے کیا لشکرِ اعدا کو جو صاف
رُک گئی نبضِ فلک کانپ اُٹھے شش اطراف
پڑ گئے قصرِ رعونت کے حصاروں میں شگاف
گڑگڑا کر کہا اعدا نے کہ تقصیر معاف
ظُلمتِ کفر میں ایماں کی سحر پھُوٹ گئی
ضربتِ فقر سے شاھی کی کمر ٹُوٹ گئی
جانِ زھرا ،پسرِ حیدرِ کرّار بھی ہے
ابرِ رحمت بھی ہے وہ برقِ شرر بار بھی ہے
آزمائش کی گھڑی ہو تو مددگار بھی ہے
پھُول اگر بزم میں ہے رزم میں تلوار بھی ہے
جنگ جُو اِس کی شجاعت کی قسم کھاتے ہیں
درِ شبیر پر افلاک بھی جُھک جاتے ہیں
نوکِ شمشیر سے دُشمن کا ہُوا چاک لباس
چھاگئی ہیبتِ حق کفر پہ بے حدّ و قیاس
خود تو موجود تھے گم ہوگئے سب ہوش و حواس
تیغ نے کاٹ کے سب رکھ دئیے اَشرارَ النّاس
اُس نے بھُولے سے بھی اوچھا نہ کبھی وار کیا
ایک ہی ضرب میں دوچار کو فی النّار کیا
رفتہ رفتہ یُونہی بڑھتی رہی شمشیر کی کاٹ
دُشمنوں کے لیے اُس وقت کوئی گھر تھا نہ گھاٹ
ضرب ایسی تھی کہ ہوجائیں صفیں جس سے سپاٹ
جاں بلب دُشمنِ جاں اور یہ تھی لوہا لاٹ
لشکرِ شام کے ہونٹوں پہ ترانے نہ رہے
مَلکُ الموت کے بھی ہوش ٹھکانے نہ رہے
رن میں اِس شان سے مولا کی سواری آئی
ڈر تھا ایک ایک کو بس اب مِری باری آئی
یُوں لڑائی کے لیے فوج تو ساری آئی
دل دہلتے تھے کہ مارے گئے خواری آئی
جن کو کچھ دین سے مطلب نہ خدا کا ڈر تھا
اُن کو بس ایک ہی ڈرتھا جو قضا کا ڈر تھا
جب چلا ابنِ علی بہرِ وغا زمزمہ خواں
سر بکف نعرہ بلب سوز بدل شعلہ بجاں
رُعب سے لشکرِ بدخواہ تھا سرگرمِ فغاں
دَم بخود خاک بسر لرزہ بتن نوحہ کناں
تیغِ شبّیرنے جوہر وہ دکھائے اپنے
خاک میں مِل گئے سفّاک عَدُو کے سَپنے
سَر پہ زینب نے جو سَر چوُم کے باندھی دستار
صدقے ہونے کو مدینے سے چلی بادِ بہار
مصؐطفٰے نے یہ ادا دیکھ کر چُومے رُخسار
بن سنور کر جو ہُوا دُلدُلِ حیدر پہ سوار
شور اُٹّھا کہ گُلِ باغِ بتول آتا ہے
مرحبا دینِ شہادت کا رَسول آتا ہے
بے کسوں اور غریبوں کا سہارا وہ حسین
ظالموں کے جو مقابل تھا صف آرا وہ حسین
حضرتِ فاطمہ کے عزم کا تارا وہ حسین
تھا پیمبرؐ کو دل و جاں سے بھی پیارا وہ حسین
اُس کو گُلزارِ رسالت کی کلی کہتے ہیں
ہم عقیدت سے حسین ابنِ علی کہتے ہیں
خود وفا کیش ہے اور درسِ وفا دیتا ہے
حق پہ آنچ آئے تو گھر بار لُٹا دیتا ہے
مورِ بے مایہ کو اقبالِ ہُما دیتا ہے
اپنے منگتوں کو شہنشاہ بنا دیتا ہے
کج کلاہی پہ نہ جا اِس میں دھرا ہی کیا ہے
درِ شبّیر جو مِل جائے تو شاہی کیا ہے
آخری سجدے میں آیا جو وہ اخلاص مآب
اُٹھ گیا بندہ و معبود کے مابین حجاب
لڑگئی حُسنِ حقیقی سے نگاہِ بے تاب
بڑھ کے جبریلؑ نے تھامی مِرے مولا کی رکاب
مصؐطفٰے جھُوم گئے پیکِ قضا جُھوم گیا
جو بھی بندہ تھا خدا کا بخدا جھُوم گیا
کوئی شبّیر سا خالق کا پرستار نہیں
اُمّتِ احمدِؐ مُرسَل کا وفادار نہیں
لب پہ دعوے ہیں مگر عظمتِ کردار نہیں
جراءت و عزم وعزیمت نہیں ایثار نہیں
کُودتا کون ہے اُمڈے ہُوئے طوفانوں میں
کون گھر بار لُٹاتا ہے بیابانوں میں
ذات ایسی کہ نہیں جس کا زمانے میں جواب
اُس کے جَد شافِعؐ محشر تو پدر علم کا باب
رُوئے اطہر کی زیارت میں تلاوت کا ثواب
کشتِ اسلام ہُوئی اُس کے لہو سے شاداب
تین ایّام کے پیاسے نے بڑا کام کیا
شاہِؐ بطحا کے نواسے نے بڑا کام کیا
اللہ اللہ وہ الطاف وہ اندازِ کرم
جس کی تعریف سے قاصر ہیں زبان اور قلم
نام سے جس کے لرزتے ہیں رعونت کے قدم
مجھ کو ہم شکلِ پیمبرؐ کی جوانی کی قسم
گُفتگو ایسی کہ جو مُنہ سے کہا بر حق تھا
ضرب ایسی کہ پہاڑوں کا کلیجہ شَق تھا
سیرتِ پاک قوانینِ شرافت کا نصاب
تابناکی میں جبیں رُوکشِ مہر و مہتاب
چشمِ حق بیں میں تھی خُم خانہء وحدت کی شراب
ہر نظر آپ کی تھی صبر و رضا کا اک باب
بے خودی ایسی کہ بس ارض و سما جھُوم اُٹھے
آدمی کیا ہیں فرشتے بخدا جھُوم اُٹھے
ابنِ زہرا رُخِ کونین بدل سکتا ہے
آدمی اُس کے سہارے سے سنبھل سکتا ہے
باندھ کر سَر سے کفن رن میں نکل سکتا ہے
کفر کو دِین کی ضربت سے کُچل سکتا ہے
اُس کی ہر آن میں ہے شان مسلمانوں کی
ذات سے اُس کی ہے پہچان مسلمانوں کی
جھولیاں سب کی عنایات سے بھردیتا ہے
مانگنے والے کو وہ لعل و گُہَر دیتا ہے
دیدہء کور کو انوارِ سَحَر دیتا ہے
نخلِ اُمّید کو بخشش کا ثمر دیتا ہے
ایسے انسان ہی مولا سے مِلا دیتے ہیں
ایسے بندے ہی محمدؐ کا پتا دیتے ہیں
اُس کی ہر ضرب ہے ظلمت کے لیے برق فشاں
اُس کی تلوار میں ہے جوہرِ عزم و ایقاں
اُس کی ہیبت سے جفا کار ہیں لرزاں ترساں
کفر اک ذرّہء ناچیز تو وہ کوہِ گراں
رشتہ اللہ سے اور اُس کے نبیؐ سے جوڑا
اپنے کردار سے دشمن کا تکبّر توڑا
کربلا کا وہ مجاہد وہ شہیدوں کا امام
جس کی سطوت سے ہُوا زیر و زبر لشکرِ شام
جس کے در سے کبھی خالی نہ پھرا کوئی غلام
جو پلائے گا قیامت میں چھلکتے ہوئے جام
وہ سخی جس کے گھرانے سے ہمیں کیا نہ مِلا
اُس کو پینے کے لیے پانی کا قطرہ نہ مِلا
حیف وہ پیاس کے لمحات وہ دریائے فرات
بُوند بھر پانی سے محروم زبانیں ہَیہات
تشنگی دیکھ کے کہتے تھے مخالف بد ذات
آپ کچھ غم نہ کریں تیروں کی ہوگی برسات
یہ تو کیا دیکھتے دو روز کا پیاسا تھا حسین
یہ نہ سوچا کہ محمدؐ کا نواسا تھا حسین
وہ نہ چاہے تو دل آویز فضا ہی نہ رہے
دیدہء حُسن میں یہ برق نگاہی نہ رہے
ماہ میں نُور نہ ہو آب میں ماہی نہ رہے
آنکھ بدلے تو شہنشاہ کی شاہی نہ رہے
کافروں کو جو مسلمان بنا سکتا ہے
وہ گداؤں کو بھی سُلطان بنا سکتا ہے
بختِ خُفتہ کو اشارے سے جگا دیتا ہے
سینہء کفر میں ایمان رچا دیتا ہے
جتنے حائل ہوں حجابات، اُٹھا دیتا ہے
یعنی اللہ سے بندے کو مِلا دیتا ہے
دل سے انسان کے ہر کھوٹ نکل جاتی ہے
اُس کی سرکار میں دنیا ہی بدل جاتی ہے
جس کی رگ رگ میں خلوص اور وفاداری ہو
جس کی تقریر میں اندارِ نکوکاری ہو
رُوکشِ ابر فلک جس کی گہر باری ہو
جو امینِ روشِ رحمت و ستّاری ہو
وارثِ منصبِ ابرار وہی ہوتا ہے
مسندِ فقر کا حق دار وہی ہوتا ہے
اِن میں اعجازِ مسیحا نَفَساں آج بھی ہے
اِن کے غصّے میں وہی برق نہاں آج بھی ہے
اِن کے ہاتھوں میں زمامِ دو جہاں آج بھی ہے
اِن کی ٹھوکر میں جہانِ گزراں آج بھی ہے
دل عَدُو کے تپشِ بُغض سے افسردہ ہیں
مُردہ کہتے ہیں جو ایسوں کو وہ خود مُردہ ہیں
مفتئ عشق کا فتوٰی ہے کہ بے نسبتِ تام
یہ نمازیں یہ وظیفے یہ سجود اور قیام
روزہ و حجّ و تسابیح، دُرود اور سلام
عین ممکن ہے نہ مقبول ہوں بے حُبِّ امام
خواہ میری یہ فراست ہے کہ نادانی ہے
حُبِّ اولادِ نبیؐ شرطِ مُسلمانی ہے
مئے عرفاں نہ میسّر ہو تو پینا بے سُود
مے کشی فعلِ عبث ساغر و مینہ بے سُود
ناخدا جو نہیں کوئی تو سفینہ بے سُود
حُبِّ شبّیر نہ ہو دل میں تو جِینا بے سُود
پرتوِ جلوہء حُسنِ ازلی رکھتے ہیں
دل میں جو حُبِّ نبیؐ مہر علی رکھتے ہیں
جو ترے عشق میں اے ابنِ علی ہیں بے تاب
اُن کے نزدیک نہ آئے گا جہنَّم کا عذاب
تیرے دامن سے جو لپٹے ہیں بہ چشمانِ پُر آب
وہ نہ ہو پائیں گے محشر میں کبھی خوار و خراب
بھِیڑ دیکھیں گے سرِ حشر جو پروانوں کی
لاج رکھّیں گے محمدؐ ترے دیوانوں کی
ہوگی صف بستہ جو مخلوق بہ پیشِ داوَر
دل دہل جائیں گے اُٹھے گا وہ شورِ محشر
ہم گنہ گاروں پہ ہوگی یہ عنایت کی نظر
رحمتِ حق یہ کہے گی تمہیں کس بات کا ڈر
جنّتی ہے جو خدا اور نبیؐ کو مانے
اُسے کیا ڈر جو حسین ابنِ علی کو مانے
کربلا تک ہی کہاں شان و وجاہت تیری
دونوں عالم میں ترا نام بڑا بات بڑی
لوگ دیکھیں گے یہ اعزاز ترا حشر میں بھی
اے ولی ابنِ ولی جانِ علی سبطِ نبی ؐ
جھُوم کر ہم جو سُنائیں گے ترانا تیرا
بخش دے گا تری خاطر ہمیں ناناؐ تیرا
شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر
کتاب کا نام :- فیضِ نسبت