تذکرہ سُنیے اب اُن کا دلِ بیدار کے ساتھ
ہے جنہیں خاص قرابت شہِؐ ابرار کے ساتھ
صرف زینب کا وہ خطبہ سرِ دربار نہ تھا
رُعب حیدر کا بھی تھا جُراءتِ گُفتار کے ساتھ
بیڑیاں، صدمہ، سفر، پیاس، نقاہت، صحرا
ظلم کیا کیا نہ ہوئے عابِدِ بیمار کے ساتھ
ہائے کس طرح وہ بازار سے گزرے ہوں گے
نام تک جن کا نہ آیا کبھی بازار کے ساتھ
ایک کم سِن کی وہ ننّھی سی لحد کیا دیکھی
رو دیئے ہم تو لپٹ کر دَر و دیور کے ساتھ
خود کو وہ فوجِ حُسینی کا سپاہی سمجھے
جس کا کردار بھی پاکیزہ ہو گُفتار کے سا تھ
اُن پہ طاری تھا ترے سامنے اک رعشہء خوف
رقص کرتے تھے جو پازیب کی جھنکار کے ساتھ
اُن کا لہجہ ہے حقیقت میں علی کا لہجہ
بات کرتے ہیں مقابل سے جو تلوار کے ساتھ
کر لیا مصلحتوں نے اُسے پابندِ ہوس
وقت کیا خاک چلے گا تِری رفتار کے ساتھ
دے گئے درس یہ اُمّت کو حُسینی تیور
سر کو کٹواؤ، مگر نشّہء پندار کے ساتھ
اِک سکینہ کے لیے کرب کی سُولی پہ چڑھا
دیکھئے دار کو عبّاسِ علمدار کے ساتھ
یہ بجا تُو ہی ہدف تھا سرِ مقتل، لیکن
دشمنی اصل میں تھی احمدِؐ مختار کے ستھ
مَر کے خود پائی بقا اور اُسے مار دیا
تُو نے کیا چال چلی دُشمن عیّار کے ساتھ
بولے عبّاس کہ ہم لوگ ہیں میداں کے دھنی
ہولیاں کھیلی ہیں چلتی ہوئی تلوار کے ساتھ
میرے سجاد یہ دُکھ کیسے بھلا دُوں تیرا
سختیاں جھیلیں سفر کی، تنِ بیمار کے ساتھ
آلِ زہرا کا سُنا ہے کہ ثنا خواں ہے نصیؔر
آیئے مِلتے ہیں اِس شاعرِ دربار کے ساتھ
شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر
کتاب کا نام :- فیضِ نسبت