اے آہ حبیب صاحبِ قبر

اے آہ حبیب صاحبِ قبر

تیرے لیے کس طرح کریں صبر


یوں سر پہ پیامِ موت پہنچا

جیسے کہ قمر پہ آگیا اَبر


تاریخ تھی ساتویں محرم

جاں بارگہِ خدا میں کی نذر


تاریخ جمیل ہو ہویدا

قصرِ شہوار منزلِ قبر


ساتویں ماہِ محرم کو ہوئے رخصت حبیب

بن گیا کٹھگر کے گورستان میں اُن کا مزار


پورے مصرع میں کہو تاریخ مدّاحُ الحبیب

کھل گیا اُن کے لیے بابِ بہشتِ پُر بہار


یہ صدا سنتا ہوں میں قبرِ برادر سے جمیلؔ

پڑھ لو بھائی روح پر اس بے نوا کی فاتحہ


گیامیں قبر پہ اِک روز اپنے بھائی کی

ہوا زبان پہ جاری کہ آہ آہ حبیب


بڑھا جو جوش محبت کا قلب پر زیادہ

پکارا ہاتفِ غیبی نے مجھ سے ہو کے قریب


جمیلؔ چپ رہو خاموش کیوں جگاتے ہو

ابھی تو چین سے سویا ہے ایک طفلِ غریب

شاعر کا نام :- جمیل الرحمن قادری

کتاب کا نام :- قبائلۂ بخشش

دیگر کلام

میرا خواجہ غریب نواز

وفا پرستوں میں ننھا پسر حسین کا ہے

کربلا والوں کا غم یاد آیا

عرش بر دوش پایانِ حسّان ہے

شاہ زادے سب نبیؐ کے واجب التعظیم ہیں

گلشنِ مصطفٰیؐ کی مہکتی کلی

وہی دیتے ہیں مجھکو اور انہی سے مانگتا ہوں میں

سوہنی صُورت سوہنی خصلت سوہنی چال علی دی

پائی جس صاحبِ صدق نے خلعتِ اصدق الصادقیں

بےمثل مصطفیٰ سے الفت ہے مرتضیٰ کی