اسرارِ معارف کا گلستاں ابو طالب

اسرارِ معارف کا گلستاں ابو طالب

ایمان کے ہر درد کا درماں ابو طالب

تختِ دلِ ہستی کا سلیماں ابو طالب

ہر دور میں سرچشمہء ایماں ابو طالب

ہر غم سے جو اس کو ابو طالب نہ بچاتا

اسلام ترا ٹھوکریں کھاتا نظر آتا


شادابیِ گلزارِ پیمبرؐ ابو طالب

احسان و سخاوت کا سمندر ابو طالب

رتبے میں ہے کعبے کے برابر ابو طالب

تقدیس میں کعبے سے بھی بڑھ کر ابو طالب

جھکتی ہے جبیں جس پہ ترے فکر و نظر کی

ہے جائے ولادت ابو طالب کے پسر کی


حیراں ابو طالب کی انا پر ہیں ملک تک

عمراں کے مدارج کی رسائی ہے فلک تک

ہے روشنیِ قلب و نظر اس کی جھلک تک

طوفانِ مصائب میں بھی جھپکی نہ پلک تک

خوشبو ہے رواں جس کی ہر اک دل کی کلی میں

کھیلا ہے وہی دیں ابو طالب کی گلی میں


جو خوں ابو طالب کے عزائم کی عطا ہو

وہ خون بھلا کیسے رگِ دیں سے جدا ہو

جس طور سے احساں ابو طالب نے کیا ہو

ممکن نہیں اسلام سے یہ قرض ادا ہو

اس پر بھی یہ فتویٰ کہ اسے دین سے کد ہے

یہ منکرِ عمراں کا فقط بغض و حسد ہے


کر یاد وہ شعبِ ابی طالب کا زمانہ

جذبے کے شراروں کو ہواؤں سے لڑانا

وہ عزم و جلالِ رخ عمراں کا فسانہ

ہر رات پیمبرؐ کو مصائب سے بچانا

اس طور کا دنیا میں کوئی باپ دکھا دے

جو موت کے بستر پہ بھی بیٹوں کو سلا دے


تم لوگ مسلماں جو ہوئے، کچھ نہیں کہتے

تم داعیِ ایماں جو ہوئے، کچھ نہیں کہتے

تقدیر کے ساماں جو ہوئے کچھ نہیں کہتے

ہاں دشمنِ عمراں جو ہوئے، کچھ نہیں کہتے

چاہو تو دلیروں کو بھی حجرے میں بٹھا دو

بزدل کو مگر فاتحِ کونین بنا دو


اللہ کے گھر کا جو نگہباں ہو وہ کافر؟

جو حق کے لیے اتنا پریشاں ہو وہ کافر؟

جو عرشِ معلیٰ کا مسلماں ہو وہ کافر ؟

ایماں نہیں جو محسنِ ایماں ہو وہ کافر؟

اس بات پہ کیوں کوئی پریشاں نہیں ہوتا

ایماں کا پدر منکرِ ایماں نہیں ہوتا


جب فہم نے بدلا کبھی تشکیک کا قالب

جب لفظ سے چھینی گئی جاگیرِ مطالب

جب فکر کی دنیا پہ جہالت ہوئی غالب

اسلام پکارا ابو طالب، ابو طالب

خود حق کے لیے حق ہی پریشاں نظر آیا

باطل کے مقابل میں بھی عمراں نظر آیا


قندیلِ چراغِ رخِ احمد ابو طالب

ایمان سے ایمان کی ابجد ابو طالب

باطل کے لیے ضربتِ ایزد ابو طالب

ہر مملکتِ دیں کی ہے سرحد ابو طالب

دستارِ پیمبر کو جو عمراں نہ بچاتا

ہر سمت سقیفہ ہی سقیفہ نظر آتا

شاعر کا نام :- محسن نقوی

کتاب کا نام :- حق ایلیا

دیگر کلام

نہیں خوش بخت محتاجانِ عالم میں کوئی ہم سا

شاہِ خیبر شکن کی یاد آئی

نکھرے ہوئے کردار کا قرآن ہے سجادؑ

پڑے مجھ پر نہ کچھ اُفتاد یاغوث

بڑا گھمنڈ ، تفاخر ، غرور اور تمکین

حیدرِ کراّر، امام الاولیا

کیا بتائے گا کوئی رِفعتِ بامِ حسنین

زندگی بوبکرکی حکم خدا کے ساتھ ہے

دُختر مصطفی، سیّدہ فاطمہ

اس نے کہا کہ مجھ کو یہ ”سونا“ پسند ہے