اس نے کہا کہ مجھ کو یہ ”سونا“ پسند ہے

اس نے کہا کہ مجھ کو یہ ”سونا“ پسند ہے

اس نے کہا یہ جنس ہی اتنی بلند ہے


اس نے کہا کہ منصبِ بازار کون ہے؟

اس نے کہا کہ آج خریدار کون ہے ؟


اس نے کہا کہ نام بتانا ضرور ہے ؟

اس نے کہا کہ جنس پہ مجھ کو غرور ہے ؟


اس نے کہا کہ چھوڑ بھی اب جانتا تو ہے

اس نے کہا کہ تو مجھے پہچانتا تو ہے


اس نے کہا کہ نام کی اب ضد نہ کیجیے

اس نے کہا کہ اور دکاں دیکھ لیجیے


اس نے کہا کہ دیکھ فضا کتنی نیک ہے

اس نے کہا یہ جنس کروڑوں میں ایک ہے


اس نے کہا کہ نام پہ اڑنے سے فائدہ

اس نے کہا کہ مفت بگڑنے سے فائدہ


اس نے کہا کہ کیسے تیرے دل میں گھر کریں

اس نے کہا کہ بات ذرا مختصر کریں


اس نے کہا کہ سن وہ احد ہے عدد نہیں

اس نے کہا کہ جنس کے بھی خال و خد نہیں


خوش ہو کہ ذاتِ حق ہے بنی مشتری تری

پہلے بھی اس پہ قرض ہے انگشتری مری


اس نے کہا کہ وہ تو سخاوت کی بات تھی

اس نے کہا حضور مروت کی بات تھی


اس نے کہا کہ وہ تھا اولی الامر کا مقام

اس نے کہا کہ ہم نے بڑھایا تھا تیرا نام


اس نے کہا کہ آج یہ سونا ہے کس طرح

اس نے کہا کہ دیکھ مناسب ہو جس طرح


اس نے کہا کہ جنس کی قیمت سنا مجھے

اس نے کہا کہ اپنا ارادہ بتا مجھے


اس نے کہا میں بھاؤ چکاتا نہیں کبھی

اس نے کہا میں نرخ بتاتا نہیں کبھی


اس نے کہا کہ صاحبِ معیار بن کے آ

اس نے کہا کہ تو بھی خریدار بن کے آ


اس نے کہا کہ جنس پہ چادر ہے کس لیے ؟

اس نے کہا کسی کی نظر ہی نہ لگ سکے


اس نے کہا کہ جنس ذرا وقفِ دید کر

اس نے کہا کہ اس کو پرکھنا خرید کر


اس نے کہا کہ کچھ تو مرے دل کا کر خیال

اس نے کہا کہ ہاتھ ادھر لا ادھر سنبھال


اس نے کہا کہ کوئی عدو کاروبار میں

اس نے کہا کہ رو رہا ہوگا وہ غار میں


اس نے کہا کہ جنس کے بارے میں کیا کریں؟

اس نے کہا کہ آپ ہی کچھ فیصلہ کریں


اس نے کہا کہ آج سے ارض و سما ترے

اس نے کہا کہ وہ تو نہیں نقشِ پا مرے


اس نے کہا کہ شمس و قمر بھی تیرے غلام

اس نے کہا کہ یہ مری انگشت کا ہے کام


اس نے کہا قضا و قدر بھی ہے تیرے نام

اس نے کہا کہ ان سے تو کھیلے مرے غلام


اس نے کہا خدائی کے سجدے ترے نثار

اس نے کہا کہ وہ مری اک ضرب کا غبار


اس نے کہا کہ لوح و قلم بھی ترے سپرد

اس نے کہا کچھ اور بڑھا میری دستبرد


اس نے کہا کہ وارثِ لیل و نہار تو

اس نے کہا کچھ اور بڑھا میری آبرو


اس نے کہا سزا و جزا تجھ پہ منحصر

اس نے کہا کہ مشتری مطلب کی بات کر


اس نے کہا کہ خلد بھی تیری کنیز ہے

اس نے کہا کہ وہ مرے بچوں کی چیز ہے


اس نے کہا کہ ساقی کوثر بھی تو ہے اب

اس نے کہا میرے مراتب بڑھیں گے کب؟


اس نے کہا کہ فاتحِ خیبر ترا لقب

اس نے کہا کہ بات تو بننے لگی ہے اب


اس نے کہا کہ میرے فرشتے تیرے غلام

اس نے کہا کروں گا تری بندگی مدام


اس نے کہا کہ بدر و احد بھی تجھے نصیب

اس نے کہا کہ اس سے جلیں گے مرے رقیب


اس نے کہا کچھ اور بھی کرنا ہے اب وصول

اس نے کہا کہ جو تری مرضی ہو سب قبول


اس نے کہا پھر آج سے میری رضا ہے تو

میں تیرا مدعا ہوں مرا مدعا ہے تو


اس نے کہا کہ بس میری سرکار شکریہ

اس نے کہا نہیں ترا سو بار شکریہ


تھا مشتری بھی خوش، مرا تاجر بھی سو گیا

” سونا“ علی کے صدقے میں انمول ہو گیا

شاعر کا نام :- محسن نقوی

کتاب کا نام :- حق ایلیا

دیگر کلام

ہر سو رواں ہوائے خمارِ طرب ہے آج

فضا معطر، خلا منور، سما ہے مصروفِ کجکلاہی

یہ اولیاء کا غرور سہرا یہ انبیاء کا وقار سہرا

آباد دما دم آدم کی شہ رگ میں علی تن تن میں علی

نظر بھی مست مست ہے فضا بھی رنگ رنگ ہے

دھڑک رہی ہے زندگی دلوں میں اضطراب ہے

سلطانِ عرب معراج نسب اے ناصرِ ارض و سما مددے

تلوار علیؑ

یہ بات ہے تو پھر مرے تیور بھی دیکھنا

تلوار