تلوار

جی چاہتا ہے آج قیامت کا رَن پڑے

گردن سے سر جدا ہوں، بدن پر بدن پڑے


کہرام وہ مچے کہ فلک سے نہ بن پڑے

جھنکار سے اجل کی جبیں پر شکن پڑے


چنگاریوں سے شمس و قمر میں گہن پڑے

میرے ہر ایک وار سے بجلی سی چھن پڑے


جس سمت میرے غیظ و غضب کی کرن پڑے

مولا کے دشمنوں پہ قضا کا کفن پڑے


پیوست ہوں زمیں سے جو میرے شکار ہوں

کوئی شمار کر نہ سکے بے شمار ہوں

شاعر کا نام :- محسن نقوی

کتاب کا نام :- حق ایلیا

دیگر کلام

اسرارِ معارف کا گلستاں ابو طالب

کربلا کے جاں نثاروں کو سلام

دلوں کے سہارے توآنکھوں کے تارے

اپنے رب توں جس صاحب نوں پیغمبر ؐ نے منگیا

جب اندھیروں کے سبب کُچھ بھی نہیں تھا روشن

مثالی ہے جہاں میں زندگی فاروقِ اعظم کی

شبّیر کَربلا کی حکومت کا تاجدار

دلِ مایوس کو دیتا ہے سہارا داتاؒ

واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا

کرم کے آشیانے کی کیا بات ہے