جی چاہتا ہے آج قیامت کا رَن پڑے
گردن سے سر جدا ہوں، بدن پر بدن پڑے
کہرام وہ مچے کہ فلک سے نہ بن پڑے
جھنکار سے اجل کی جبیں پر شکن پڑے
چنگاریوں سے شمس و قمر میں گہن پڑے
میرے ہر ایک وار سے بجلی سی چھن پڑے
جس سمت میرے غیظ و غضب کی کرن پڑے
مولا کے دشمنوں پہ قضا کا کفن پڑے
پیوست ہوں زمیں سے جو میرے شکار ہوں
کوئی شمار کر نہ سکے بے شمار ہوں