گرچہ سرورِ دیں کی، ساری آل خوشبو ہے

گرچہ سرورِ دیں کی، ساری آل خوشبو ہے

گل بدن علی اصغر، لازوال خوشبو ہے


اس کلی کی نکہت کے، رنگ و بو ہیں شیدائی

کربلا کے صحرا میں، بے مثال خوشبو ہے


کون اس کا ثانی ہے،چار دانگِ عالم میں

روپ رنگ اجلا ہے، بال بال خوشبو ہے


کم سنی میں آیا ہے، جو یزید کی زد میں

گلشنِ حسینی کا، نو نہال خوشبو ہے


جانبِ جناں اس کا، یہ سفر بتاتا ہے

بوستانِ جنت کا، ہر سوال خوشبو ہے


خلد کے گلستاں میں ،اس گلابِ کمسن کا

پات پات چرچا ہے ،ڈال ڈال خوشبو ہے


گرچہ روپ خوشبو کا ،کوئی بھی نہیں ہوتا

یہ بدن ہے خوشبو کا، خوش جمال خوشبو ہے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- زرنابِ مدحت

دیگر کلام

اس پر کھل جائے ابھی تیغ علی کا جوہر

خلافتِ شہِؐ کی ابتدا صدّیق

حسن و جمال فکر و شجاعت تجھے سلام

کر بل کہ آگ کا میں دہانہ کہوں اسے

قادریت کے نشاں تھے حضرتِ سید میاں

الٰہی! فَضل ہے تیرا، گدائے اعلیٰ حضرت ہوں

رتبے میں ہو نجی تو وہی شان چاہیے

تجھے مِل گئی اک خدائی حلیمہ

بزمِ محشر منعقد کر میرِ سامانِ جمال

ملکِ ولاء کے سیدوسلطان ہیں علی