ہے میرے شیخِ کامل کا زمانے میں ہُنر زندہ

ہے میرے شیخِ کامل کا زمانے میں ہُنر زندہ

کہ اُن کا ہے سُخن زندہ ، سُخن کا ہے اثر زندہ


مرے اللہ نے بخشی ، حیاتِ جاوداں اُن کو

نظر سے گرچہ اوجھل ہیں،دلوں میں ہیں مگر زندہ


سفر میں نعت گوئی کے ، رہے جو ہم قدم اُن کے

نصیر الدین ہیں زندہ ، ہیں اُن کے ہمسفر زندہ


رہے چھتنار برگد کی طرح سایہ کناں دائم

جو دیں سایہ مُسافر کو ، وہ رہتے ہیں شجر زندہ


وہ ان کا دل ربا لہجہ جو تھا برق و شرر جیسا

ہمیشہ حق ہی کہتے تھے ہمارے تاجور زندہ


قبیلِ شیخِ جامی کے ، ہوئے فردِ فرید ایسے

ہیں مثلِ پیشرَو اپنے ، مرے جان و جگر زندہ


علی ، غوثِ جلی کا ہے ، کرم مہرِ علی کا ہے

اُنہی کا فیضِ نسبت ہے کہ اب تک ہے یہ در زندہ


یہ ہم جیسے نکمّوں پر بھی ہے چشمِ کرم اُن کی

کہ ہو کر اُن سے وابستہ ، ہیں بے خوف و خطر زندہ


شہانِ گولڑہ کا میں جلیل ادنٰی سا نوکر ہوں

سو اُس در سے جُڑے رہ کر ہے مُجھ سا بے ہُنر زندہ

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

صفحہِ زیست پہ تحریرِ شہادت چمکی

وہی دیتے ہیں مجھکو اور انہی سے مانگتا ہوں میں

میں ہوں سائل میں ہوں منگتا

قلزمِ تقدیس کی گوہر صفیہ سیدہ

انسانیت کا محسن اعظم حسین ہے

حسبوں نسبوں ارفع اعلیٰ ہے سادات گھرانہ

علیؑ علیؑ عرفان کا در ہے ‘ علی ؑ گویا ولی گر ہے

رضویت ماتم کناں ہے مضطرب برکاتیت

عزیزِ بارگہِ کبریا غریب نواز

غَم ِ شہادتِ شبیّر کی گواہی دے