لمعاتِ مدحت

دلِ مُضطر کی حالت ہے تُجھے معلوم یا اللہ

اسمِ ذاتِ الٰہی سے ہے ابتدا

کہاں مُمکن کہ ہم جیسے بھی نعتِ مُصطفٰےْ لکھیں

اماوسوں کے نشاں مٹاتی ہے نعت اُن کی

ساری دُنیا سے نرالا آمنہ کی گود میں

لفظ جو میں نے سجائے نعت میں

سپنوں میں آئیں آپ تو ہو جائے میری عید

قلم، قرطاس ہاتھوں میں،زباں پر مدحِ جاناں ہے

جو ضَوفشاں ہے ضُحٰی کی بارش

شاہ کی تصویر ہر درپن میں ہے

ماہِ عرب کا نور مری شاعری میں ہے

مدینے میں جو طیّارہ اُترتا یا رسول اللہ

تکتے رہے جو آپ کے روضے کو بیٹھ کر

کبھی تو جانبِ بطحا ہمارا بھی سفر ہوگا

اُن کا ہوا تو خاص حوالے میں آ گیا

ہوں دامن میں انبار بھی گر عمل کے

اُنکی سیرت رہے زندگانی کے ساتھ

کر تُو اِنساں کی خدمت دُعا دیں گے لوگ

عجب جشنِ بہاراں ہے

سبھی نے کوہِ رحمت پر سُنا خُطبہ شہِ دیں کا

مُقدّر گر ہوا یاور مدینے ہم بھی جائیں گے

خوشا ہم سےنکمّوں کے سروں پر اُن کا سایہ ہے

بس شہرِ سرکار کو جانا اچھا لگتا ہے

کبھی وہ گُنبدِ خضرٰی مدینے جا کے دیکھیں گے

سروں پہ غم کے تنے ہیں بادل

ہُوا جو اہلِ ایماں پر وہی احسان باقی ہے

ثنائے مُصطفٰے کرنا یہی ہے زندگی اپنی

میرے سنِ شعور کی جب سے کُھلی ہے آنکھ

چَھٹے زمانے سے غم کے سائے جو آپ آئے

ہم بھی درِ رسول پہ جاتے تو بات تھی