سبھی نے کوہِ رحمت پر سُنا خُطبہ شہِ دیں کا

سبھی نے کوہِ رحمت پر سُنا خُطبہ شہِ دیں کا

صحابہ نے بہ جان و دل کہا مانا شہِ دیں کا


ہوا ہے کوئی اُن جیسا ، نہ ہوگا پھر قیامت تک

کہ جن کو سر کی آنکھوں سے ہوا جلوہ شہِ دیں کا


یہ جبریلِ امیں سے تُم ذرا پُوچھو شبِ اسرٰی

وہ کیا لذّت تھی جب چُوما گیا تلوا شہِ دیں کا


مدینے کے سفر میں یُوں سمویا اُس کو آنکھوں میں

کہ اب رہتا ہے نظروں میں سدا روضہ شہِ دیں کا


مُقدّر ہےصحابہ کا کہ وہ رہتے تھے خدمت میں

کہ تکتے زندگی گُزری کِھلا چہرہ شہِ دیں کا


خُدا کی سب عطاؤں کے مُحمّد مُصطفٰے قاسم

ہمیں تو جو مِلا ہے بس مِلا صدقہ شہِ دیں کا


مرے آقا کی عظمت کا احاطہ ہو نہیں سکتا

ہر اِک نے ہی کہا آخر ، ہے کیا کہنا شہِ دیں کا


بلندی بخش دی دائم مرے آقا کو مولا نے

زمانے میں رہا پرچم سدا اُونچا شہِ دیں کا


جلیل اُن سا زمانے میں کوئی ہوگا بھلا کیسے

کہ نبیّوں میں نہیں کوئی بھی ہم رُتبہ شہِ دیں کا

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

چمن دا آگیا مالی بہاراں رقص چا کیتا

صاحبِ فقر و غنا ہیں خواجہ

مدینے محترم نوں دیکھ آیاں

یہ ناز یہ انداز ہمارے نہیں ہوتے

حرم کی اذان حسین اللہ اللہ

شان و عظمت دے سمندر نوں مدینہ آکھاں

میری ہر ایک چیز ہے سرکار آپؐ کی

رحمتوں کا پُر تجلی ہے سماں چاروں طرف

درودِ پاک سے دیوار و در آباد رکھتا ہوں

اپنے ہاتھوں ہی پریشان ہے اُمّت تیری