اپنے ہاتھوں ہی پریشان ہے اُمّت تیری

دفن جو صدیوں تلے ہے وہ خزانہ دے دے

ایک لمحے کو مجھے اپنا زمانہ دےدے


چھاپ دے اپنے خدوخال مری آنکھوں پر

پھر رہائش کے لیے آئِنہ خانہ دے دے


اور کُچھ تُجھ سے نہیں مانگتا میرے آقا

نارسائی کو زیارت کا بہانہ دےدے


مَوت جب آئے مجھے کاش ترے شہر میں آئے

خاکِ بطحا سے بھی کہہ دے کہ ٹھکانہ دے دے


زندگی ، جنگ کا میدان نظر آتی ہے

میری ہر سانس کو آہنگِ ترانہ دےدے


اپنے ہاتھوں ہی پریشان ہے اُمّت تیری

اُس کے اُلجھے ہُوئے حالات کو شانہ دےدے


اپنے ماضی سے مظفّؔر کو ندامت تو نہ ہو

اس کے اِمروز کو فردائے یگانہ دے دے

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- کعبۂ عشق

دیگر کلام

دونوں عالم میں ہے دن رات اُجالا تیرا

میرے لَب پر جب ان کا نام آیا

خلق کہ جان دے دشمن ہیٹھاں چادر آپ وچھاوے

ہے دیار نبی ﷺ تو ہمارا وطن

جلوہ فگن محمد ﷺ ‘ جلو نما محمد ﷺ

عاصیاں او گنہاراں اُتے رب نے کرم کمایا اے

آپ کے قدموں پہ سر رکھنا مری معراج ہے

جس کو چاہا میٹھے مدینے کا اس کو مہمان کیا

اس خوش نصیب شخص کو رب کا سلام ہے

جدوں تیک دل دی صفائی نئیں ہونی