میرے سنِ شعور کی جب سے کُھلی ہے آنکھ

میرے سنِ شعور کی جب سے کُھلی ہے آنکھ

تب سے مدینہ شہر کی جانب لگی ہے آنکھ


شہرِ نبی سے لَوٹتے ، زائر کو دیر تک

جھپکے بغیر دیکھتی رہتی رہی ہے آنکھ


فضلِ خُدا سے شہرِ مدینہ پہنچ گیا

روضے کو اِنہماک سے اب تک رہی ہے آنکھ


یہ فرطِ انبساط میں ، روضے کو دیکھ کر

جانے یہ کتنی دیر برستی رہی ہے آنکھ


کیف و سرور سے ہوا معمور میرا دل

جب گُنبدِ حسین پہ جا کر لگی ہے آنکھ


جس نے کہ ایک بار بھی دیکھا حضور کو

کب پھر بھلا وہ دوسری جانب اُٹھی ہے آنکھ


جلوہ دکھانے آئیں گے آقا ، مرے ضرور

وقتِ نزع بھی راستہ تکتی رہی ہے آنکھ


تشنہ لبی قرار میں فوراً بدل گئی

جُوں ہی رُخِ حضور پہ میری لگی ہے آنکھ


الحمد ! میں کھڑا ہوں مواجہ کے سامنے

جس کے لئے جلیل ترستی رہی ہے آنکھ

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی

طیبہ کے حسیں مرقدِ انوار کی چوکھٹ

التجا ہے یا نبی یہ آپ کی سرکار میں

درود اُن پر محمد مصطفیٰ خیر الورا ہیں جو

میں جو درِ رسول پہ ہو کر خِجَل گیا

عمل سے نکہتِ عشقِ رسولؐ پیش کرو

ریزہ تِرا پایا کریں خاقان وغیرہ

رتبہ ایہ کیڈا بی بی آمنہؓ دے لال دا

یارب مرے دل میں ہے تمنائے مدینہ

کیا پوچھتے ہو ہم سے، مدینے میں کیا مِلا