عجب جشنِ بہاراں ہے

عجب جشنِ بہاراں ہے ، شجر خوشیاں مناتے ہیں

شجر ہی کیا یہاں برگ و ثمر خوشیاں مناتے ہیں


مرے آقا کی اِس دُنیا میں آمد کا مہینہ ہے

زمین و آسماں ، شمس و قمر خوشیاں مناتے ہیں


پلٹ کر جب بھی آتا ہے مہینہ اُن کی آمد کا

تو دیوانے یہاں بارِ دگر خوشیاں مناتے ہیں


ملا جن کے تصدّق سے اِنہیں حُسنِ ضیا باری

تو شُکرانے میں یاں نجم و قمر خوشیاں مناتے ہیں


جزا خوشیاں منانے پر ملی ہے بُولہب کو بھی

ہیں ہم تو صاحبِ ایماں، نڈر خوشیاں مناتے ہیں


سبھی حُور و ملک غِلماں ، ہیں شاداں آسمانوں پر

زمیں پر بھی یہاں جنّ و بشر خوشیاں مناتے ہیں


قدومِ مُصطفٰےجا کر لگے یثرب کی دھرتی پر

مدینہ ہو گیا لوگو ! حجر خوشیاں مناتے ہیں


خوشی ہے دیدنی یارو ! محمّد کے غُلاموں کی

جو اُن کی یاد میں شام و سحر خوشیاں مناتے ہیں


سمجھ ہی جو نہیں پائے مرے مولا کے احساں کو

تو وہ آقا کی آمد پر کدھر خوشیاں مناتے ہیں


ربیعُ النُّور کی بارہ جو گھر گھر میں اُجالا ہے

تو اِنساں ہی نہیں لوگو ! یہ گھرخوشیاں مناتے ہیں


کیا احسان مولا نے حبیب اپنا ہمیں دے کر

جلیل اِس بات پر اہلِ نظر خوشیاں مناتے ہیں

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

آراستہ کروں گا یوں اپنے سفر کو میں

تو دل کو بنا حُبِ سرکار کا آئینہ

اک پل اندر جاوے عرش اتے کوئی نئیں ہور ایسے باکمال ورگا

آپؐ کا رحمت بھرا ہے آستاں سب کے لیے

سجدے جبیں جبیں ہیں دعائیں زباں زباں

جو بزمِ لامکاں پہنچا نبی میرا نبی میرا

جو صدقِ دل سے تمہارا غلام ہوجائے

مصطفیٰ جان رحمت کی الفت لیے

خواب میں ہی سہی اُس رشکِ قمر کی صورت

آمنہ بی بی کے آنگن میں برکت والا آیا ہے